جب بات سفارت کاری کی ہوتی ہے تو اس کے ہیروز کے سروں پر نہ تو سرخاب کے پر لگلے ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ عام انسانوں کی نسبت بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ ایسے عام انسان ہوتے ہیں جنہیں حالات غیر معمولی صورت حال میں دھکیل دیتے ہیں۔
ایلزبتھ “لزی” سلیٹر اسی طرح کی ایک سفارت کار ہیں۔ وہ 7 اگست 1998 کو دار السلام، تنزانیہ میں امریکہ کے سفارت خانے میں ہونے والے بم دھماکوں کے وقت سفارت خانے میں فارن سروس کی انفارمیشن ٹکنالوجی کی سپیشلسٹ کے طور پر تعینات تھیں۔
محکمہ خارجہ نے امریکی سفارت کاری کے ہیروز کے نام سے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا ہے۔ سلیٹر اس پروگرام کے تحت اعزاز پانے والی اولین سفارت کار ہیں۔ واشنگٹن میں محکمہ خارجہ میں ہونے والی ایک تقریب میں سلیٹر کو متعارف کرواتے ہوئے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد ایسے افراد کی خدمات کو اجاگر کرنا ہے جو “امریکہ کے مشن کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے … دانشورانہ، اخلاقی، [اور] جسمانی جرات کا مظاہرہ کرتے ہیں۔” اس تقریب میں سلیٹر کے اہل خانہ بھی شریک ہوئے۔ اُن کے شوہر چارلی بھی فارن سروس کے افسر ہیں۔
In honor of her courage and fierce commitment to service after the 1998 bombings of U.S. embassies in East Africa, I’m proud to recognize Information Management Specialist Lizzie Slater as the first selectee of our #HeroesofUSDiplomacy initiative. Congratulations, Lizzie. pic.twitter.com/iVh0fDoffK
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) September 13, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصۃ:
وزیر خارجہ پومپیو
1998ء کے بم دھماکے سلیٹر کے انفارمیشن ٹکنالوجی سپیشلسٹ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے دوسرے دن ہوئے۔ گو کہ بم دھماکوں میں وہ بری طرح زخمی ہو چکی تھیں مگر اس کے باوجود وہ تنزانیہ میں ہی رکی رہیں اور دھماکوں کے بعد امریکہ کے ساتھ رابطہ بحال کرنے پر کام کام کرتی رہیں۔
1998ء کے بم دھماکے سلیٹر کے انفارمیشن ٹکنالوجی سپیشلسٹ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے دوسرے دن ہوئے۔ گو کہ بم دھماکوں میں وہ بری طرح زخمی ہو چکی تھیں مگر اس کے باوجود وہ تنزانیہ میں ہی رکی رہیں اور دھماکوں کے بعد امریکہ کے ساتھ رابطہ بحال کرنے پر کام کام کرتی رہیں۔
تنزانیہ میں خدمات سرانجام دینے کے علاوہ سلیٹر کو اُن کی برداشت، دلیری، محنت اور اپنی ٹیم کے اراکین کے مابین دوستانہ اور اعتماد کے جذبات کو فروغ دینے کی وجہ سے بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ وہ دو دہائیوں میں 11 سے زائد ممالک میں خدمات سر انجام دے چکی ہیں۔
سلیٹر نے کہا، “محکمہ خارجہ میں افراد ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔ دوستو، انہیں گلے لگائیں۔ یہ ایک حیرت انگیز پیشہ ہے۔”