دنیا بھر میں مذہبی آزادی کا فروغ امریکہ کے نزدیک ایک بڑی ترجیح ہے — اور ہاں ایک چیلنچ بھی ہے۔ بہت سے ممالک میں لوگوں کے ساتھ اُن کے مذہبی اعتقادات کی وجہ سے زیادتیاں کی جاتی ہیں اور انہیں قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اسی بنا پر دنیا میں مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی محکمہ خارجہ کی مذہبی آزادی کی بین الاقوامی سالانہ رپورٹ کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
21 جون 2018 کو رپورٹ کے اجراء کے موقع پر وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا، “اپنی عظیم آزادیوں کے پیش نظر، ہر قوم کے عوامی چوراہے میں مذہب کے لیے کھڑا ہونا، امریکی کی واضح ذمہ داری بنتی ہے۔”
اچھی خبریں

جہاں مذہبی آزادی کی بین الاقوامی رپورٹ دنیا بھر میں ہونے والی زیادتیوں کا احوال بیان کرتی ہے وہیں اس میں ذیل میں بیان کی گئیں 2018ء میں ہونے والی مثبت پیشرفتوں جیسے واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے:
- ازبکستان نے مذہبی آزادی کے “لائحہ عمل کا ایک خاکہ” منظور کیا ہے جس میں پابندیوں کی نرمی اور مذہبی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
- پاکستان کے سپریم کورٹ نے ایک عیسائی خاتون، آسیہ بی بی کو مذہبی توہین کے الزامات سے بری کیا۔ آسیہ بی بی نے موت کی سزا دیئے جانے کے بعد آٹھ سال قید میں گزارے۔
- ترکی نے، صدر ٹرمپ کے کہنے پر، پادری اینڈریو برنسن کو رہا کیا۔ وہ اپنے عقیدے کی وجہ سے قید کیے گئے تھے۔”
پومپیو نے کہا، “ہم پیشرفت کی اِن کرنوں کاخیرمقدم کرتے ہیں مگر ہم اِن سے اور زیادہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وحشتناک زیادتیوں کا سلسلہ
چین ایک ایسا ملک ہے جہاں مذہب کے ماننے والے افراد عموماً محفوظ نہیں ہوتے۔ پومپیو نے کہا، “بہت سے مذاہب کے ماننے والے افراد — جیسے فالن گونگ پر عمل کرنے والے، عیسائیوں اور بدھ مت کے تبتی پیروکار — کے ساتھ گورنمنٹ کی طرف سے سخت زیادتیاں کرنا معمول کی بات ہے۔”
چین نے شنجیانگ میں دس لاکھ کے قریب ویغوروں، نسلی قازقوں، کرغیزوں اور دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اُن کی مرضی کے خلاف کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔ اِن کیمپوں میں لوگوں کو اپنی نسلی شناختوں، مذہبی عقائد اور ثقافتی روایات کو ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سال کی رپورٹ کے ایک خصوصی باب میں شنجیانگ میں کی جانے والی زیادتیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔

ایران میں 2018ء میں سینکڑوں گونابادی صوفیوں کو گرفتار کیا گیا۔ عیسائی، یہودی، سنی مسلمان، بہائی، زرتشتی اور دیگر مذہبی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی ملک میں زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
روہنگیا مسلمان برمی فوج کے ہاتھوں بدستور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
افغانستان میں غیر مسلموں اور اسلام کی انتہاپسند تشریحات سے اتفاق نہ کرنے والے سنی مسلمانوں کو طالبان اور اسلامی ریاست سے منسلکہ گروپوں نے قتل کیا ہے۔
پومپیو نے کہا، “گزشتہ برسوں کی طرح، ہماری رپورٹ میں [اس سال بھی] جابر حکومتوں، متشدد انتہا پسند گروہوں اور انفرادی شہریوں کی جانب سے کی جانے والی وحشت ناک زیادتیوں کے سلسلوں کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔ ”
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے 1998ء کے قانون کے تحت محکمہ خارجہ ہر سال اپنی رپورٹ جاری کرتا ہے۔
مذہبی آزادی پر دینی علما کا آئندہ اجلاس
مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے جولائی کے وسط میں ہونے والے دینی علما کے دوسرے سالانہ اجلاس کے بارے میں بھی رپورٹ میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ امسال، تقربیاً ایک ہزار افراد کی شرکت متوقع ہے۔ گزشتہ سال کے اجلاس کو پومپیو نے “اتحاد کا ایک ایسا حیرت انگیز مظاہرہ قرار دیا جس میں تمام مذاہب کے پیروکار سب سے بڑے بنیادی انسانی حقوق کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے۔”
مذہبی آزادی کے عمومی سفیر سیم براؤن بیک نے کہا، “ہمیں یہ یقین ہے کہ امریکہ کے لیے مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے لیے آج سے بڑھکر اہم کوئی اور وقت نہیں ہوسکتا۔”
یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 24 جون 2019 کو ایک بار پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔