مذہبی آزادی کا عالمی دن منانے کے لیے “شیئر امیریکا” نے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے محکمہ خارجہ کے عمومی سفیر، سیم براؤن بیک کے ساتھ گفتگو کی۔ ذیل میں طوالت کو کم کرنے کے لیے تھوڑی سی ایڈیٹنگ (تدوین) کے بعد ہمارے سوالات اور اُن کے جوابات پیش کیے جا رہے ہیں:
سوال: مذہبی آزادی کا دفاع کرنا امریکی سفارت کاری کا ایک نصب العین کیوں ہے؟
جواب: چونکہ دنیا کی 80 فیصد سے زائد آبادی ایسے ممالک میں رہ رہی ہے جہاں مذہبی آزادی پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں، لہذا اس عالمگیر انسانی حق کا شمار ہمارے وقت کے اہم مسائل میں ہوتا ہے۔
امریکہ مذہبی جبر کی موجودگی میں تماشائی بن کر کھڑا نہیں رہے گا۔ ہم میدان میں نکلیں گے اور اُن کے لیے لڑیں گے جو مذہبی یا عقیدے کی آزادی کا اپنا حق استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔
سوال: مذہبی آزادی کی اہمیت کیا ہے؟
جواب: جہاں مذہبی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے وہاں معاشی مواقعے بڑھتے ہیں، سلامتی میں اضافہ ہوتا ہے اور لوگ ترقی کرتے ہیں۔
جو ممالک آزاد اور خوشحال رہنے کی کوشش کر رہے ہیں اُن کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بنیادی آزادی کا تحفظ کرنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں۔ گو کہ علمی مطالعے کا یہ ایک نیا شعبہ ہے مگر ہمیں مذہبی آزادی کا احترام کرنے والے ممالک اور اُن ممالک کے درمیان ایک باہمی تعلق دکھائی دیتا ہے جہاں زیادہ اقتصادی خوشحالی پائی جاتی ہے۔
میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ جب مذہبی آزادی پروان چڑھتی ہے تو اس سے قوم میں روحانی سرمایہ پیدا ہوتا ہے جس سے عظیم تر اقتصادی موقع اور کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں۔ جب مذہبی آزادی پروان چڑھتی ہے تو نظریات پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔
منطق بڑی سادہ سی ہے: جب لوگ آزاد ہوتے ہیں تو ملکوں کی جیت ہوتی ہے، معاشروں کی جیت ہوتی ہے، سلامتی کی جیت ہوتی ہے۔
سوال: اس وقت دنیا کے کون سے ممالک یا علاقے آپ کے لیے تشویش کا باعث ہیں اور کیوں؟
جواب: وہ مذہبی آزادی جسے ہمارے ہاں کے (قومی) تجربے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، دنیا کے کئی علاقوں میں اُسے آج بھی پاؤں تلے روندا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر مذہبی آزادی کے حوالے سے ایران دنیا میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے اور وہ افراد کی مذہبی آزادی کی شرمناک بدلحاظی کا مظاہرہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

بہائیوں، عیسائیوں، یہودیوں، زرتشتوں، اور سنی اور صوفی مسلمانوں سمیت ایرانی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ان گنت افراد اپنے عقائد کی وجہ سے امتیازی سلوک، ہراسانی اور ناانصافی پر مبنی قید کا سامنا کرتے ہیں۔ انہیں تعلیم تک رسائی دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ اُن کے قبرستانوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان مذہبی توہین کرے یا مذہب تبدیل کرے تو اس کی سزا موت ہے۔
گزشتہ برس ایرانی حکومت نے گونابادی صوفی درویشوں کے ایک پرامن احتجاج میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف پُرتشدد کاروائی کی جسے ہیومن رائٹس واچ نے “ایک دہائی کے دوران کسی مذہبی اقلیت کے خلاف ایران میں کی جانے والی سب سے بڑی کاروائیوں میں شمار ہونے والی ایک کاروائی قرار دیا۔” ایران سے ہمارا کہنا ہے: ہم دیکھ رہے ہیں، اور ہم اُن کے لیے کھڑے ہوں گے جن کے مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
چین نے مذہب کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ ہم کم و بیش تمام مذاہب کے ماننے والوں اور چین کے بڑے حصے کے تمام علاقوں میں، چینی حکومت کی دن بدن بڑھتی ہوئی زیادتیاں دیکھ چکے ہیں۔ شنجیانگ میں چین نے دس لاکھ سے زائد نسلی مسلمانوں کو ایسے کیمپوں میں حراست میں رکھا ہوا ہے جو مسلمانوں سے اُن کی ثقافت، شناخت اورعقیدہ چھیننے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
ہم اُن رپورٹوں کا لوگوں کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں جو دوسرے لوگ تیار کرتے ہیں۔ اِن کے مطابق فالون گانگ، ویغوروں، تبتی بدھوں، اور اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنے والے عیسائیوں سمیت ضمیر کے قیدیوں کے جسموں سے زبردستی اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔ اس سے ہر ایک کا ضمیر جھنجوڑا جانا چاہیے۔

چین تبت کے بدھوں کے مذہبی طریقہائے کار اور ثقافت میں بدستور مداخلت کر رہا ہے۔ اس مداخلت میں تبت کے بدھوں کے لاموں کے انتخاب، تعلیم اور اُن کی تقدیس بھی شامل ہے۔ چین نے عیسائیوں پر کیا جانے والا ظلم و جبر بڑھا دیا ہے۔ اُن کے گرجا گھر بند کر دیئے گئے ہیں اور پرامن طور پر مذہبی عبادات کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور اس پر ہم چین کو یہ کہتے ہیں: کسی غلط فہمی میں نہ رہیں؛ آپ مذہب کے خلاف اپنی جنگ میں جیتیں گے نہیں۔ اس سے ملک کے اندر اور دنیا بھر میں آپ کے مرتبے پر اثر پڑے گا۔
سوال: اس کے برعکس آپ کو مثبت پیش رفت کہاں نظر آتی ہے؟
جواب: آج، پادری اینڈریو برنسن اپنے خاندان سے دوبارہ آ ملے ہیں۔ دنیا نے عوامی جمہوریہ چین کی انسانی حقوق کی پامالیوں پر توجہ دی ہے اور اِن کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ آسیہ بی بی کو آزاد ہوئے ایک برس سے زائد ہو گیا ہے۔ سوڈان اور ازبکستان میں حالیہ بہتریوں کے بعد، دونوں کو “خصوصی تشویش کے حامل ممالک” کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور بڑے بڑے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔
عالمی وبا، کووڈ-19 کے پھوٹنے کے بعد ہم نے دیکھا ہے کہ برما نے 1،000 سے زائد روہنگیا کے الزامات ختم کیے اور انہیں جیل سے رہا کر دیا ہے۔ ایران نے مذہبی اقلیتوں کے غیرمنصفانہ طور پر قید کیے گئے چند درجن افراد کو گھر بھیج دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ تمام عقائد کے ماننے والوں، گروپوں کی مذہبی آزادی یا کسی مذہب کو نہ ماننے والوں کی آزادی کو تحفظ فراہم کرنا اور فروغ دینا جاری رکھے ہوئے ہے۔ صدر ٹرمپ دنیا کے پہلے لیڈر ہیں جنہوں نے ستمبر 2019 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مذہبی آزادی کی ایک تقریب کی میزبانی کی۔ اس سال جون میں انہوں نے مذہبی آزادی کے بارے میں ایک انتظامی حکمنامہ جاری کیا۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے مذہبی علما کی دو کانفرنسوں کی میزبانی کی۔ وزیر خارجہ نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان امن کے عمل کو بڑھاوا دینے کے لیے ابراہیمی مذاہب کا پروگرام بھی شروع کیا۔
سوال: بین الاقوامی مذہبی آزادی کا اتحاد مذہبی آزادی کا تحفظ کیسے کرے گا۔
جواب: مذہبی آزادی کو لاحق خطرات کی نوعیت آفاقی ہے اور یہ عالمگیر شرکت اور عالمگیر حل کا تقاضہ کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ پومپیو مذہبی آزادی کے مسئلے کو دنیا بھر میں نمایاں کرنے کے لیے قومی قیادت کی سطح پر بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینے والے امریکہ کے پہلے وزیر خارجہ ہیں۔
امریکہ اور بین الاقوامی مذہبی آزادی یا مذہبی اتحاد نے مل کر مذہبی آزادی کی تمام زیادتیوں یا خلاف ورزیوں کی عوامی اور نجی سطحوں پر مخالفت کرنے کا عہد کیا ہے۔
یہ اتحاد طاقتور ممالک کو متحد کرے گا اور برے کرداروں کو روکنے اور مظلوم، بے سہارا اور کمزور لوگوں کی حمایت کرنے کے لیے اُن کے وسائل سے فائدہ اٹھائے گا۔