
بائیو ٹکنالوجی [حیاتیاتی ٹکنالوجی] کا شمار سائنس کے سب سے زیادہ ترقی پذیر شعبوں میں ہوتا ہے۔ اس شعبے میں تحقیق فروغ پا رہی ہے اور مستقبل کی کامیابیوں کی حامل دریافتوں کے لیے حیاتیات، کیمسٹری، کمپیوٹنگ، انجینئرنگ اور ریاضی کے وسائل کو استعمال میں لا رہا ہے۔
2021 کے حیاتیاتی ٹکنالوجی کے اختراعی سکور کارڈ کے مطابق حیاتیاتی ٹکنالوجی کی مصنوعات اور مسائل کے وضح کردہ حلوں کی بدولت دنیا بھر میں سال 2021 میں ایک کھرب ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ اس سکور کارڈ کے مطابق امریکہ کو اس طرح کی کامیابیوں میں سرکردہ ملک کی حیثیت حاصل ہے۔
نیٹلی بیٹز وسکونسن یونیورسٹی کے میڈیسن سکول آف میڈیسن کے نصابی شعبے کی ڈائریکٹر ہیں۔ بیٹز کا کہنا ہے کہ “کئی برسوں سے بائیوٹکنالوجی کے شعبے میں امریکہ کو یقینی طور پر ایک لیڈر جیسا مقام حاصل ہے اور [امریکہ] اِس شعبے کو پھیلانا جاری رکھے ہوئے ہے۔”
بائیوٹیکنالوجی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ستون جینیاتی انجینئرنگ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سائنس دان زندہ خلیے کے اندر موجود جینز کو تبدیل کرتے ہیں تاکہ اس کے خصائص کو تبدیل کیا جا سکے اور نئی مصنوعات تیار کی جا سکیں۔ (جینز ڈی این اے سے بنتی ہیں۔ ڈی این اے مالیکیول یعنی وہ سالمے ہوتے ہیں جو خلیے کو کام کرنے کی ہدایات دیتے ہیں۔)
1988 میں امریکہ میں جدید جینیاتی انجینئرنگ کی بنیاد اُس وقت رکھی گئی جب کانگریس نے“ہیومن جینوم پراجیکٹ” کی تیاری کے لیے فنڈ فراہم کیے۔ یہ پراجیکٹ انسانی جینوم کی ترتیب کا نقشہ تیار کرنے کی خاطر کیا جانے والا ایک بین الاقوامی تعاون تھا۔ (جینوم سے مراد کسی جاندار کی تعمیر کے طریقہ کار کے بارے میں ایک قسم کا ہدایت نامہ ہوتا ہے۔) جینوم کی ترتیب کے نقشے کی تیاری کا زیادہ تر کام 2003 تک مکمل ہو چکا تھا اور اس کے نتیجے میں کینسر کے علاج سے لے کر موروثی بیماریوں کے علاج اور اعضاء کی بحالی تک، ہزاروں طبی دریافتیں وجود میں آئیں۔ مارچ میں امریکیوں کی قیادت میں ایک سائنسی ٹیم نے انسانی جینوم کا نقشہ مکمل کیا۔
ذیل میں بائیو ٹیکنالوجی کو فروغ دینے والی امریکی سائنس دانوں کی تین حالیہ دریافتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے:-

جینز کی ایڈیٹنگ کی ٹکنالوجی: جینیفر ڈوڈنا کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے میں بائیو کیمسٹ ہیں۔ ایمانوئل شارپین ٹیئر، جانداروں کے میکس پلانک یونٹ برائے سائنس میں بائیو کیمسٹ اور ڈائریکٹر ہیں۔ ڈوڈنا اور پین ٹیئر نے جینزکی ایڈیٹنگ کرنے کی ایک تکنیک پر کام کیا جو مخففا “کرسپر” یعنی [clustered regularly interspaced short palindromic repeats] کہلاتی ہے۔ یہ تکنیک سائنس دانوں کو خلیے کی موروثی ہدایات کو تبدیل اور بند اور چالو کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اِس دریافت سے طب کے شعبے میں وسیع پیمانے پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اسے خون کے نظام میں موروثی نقائص سے پیدا ہونے والی “سِکل سیل” نامی ماضی میں ناقابل علاج سمجھی جانے والی بیماری جیسی بیماریوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسے “آپٹو جینیٹکس” جیسے نئے تشخیصی طبی آلات کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ آپٹو جینیٹکس سے محققین انسانی ذہن میں زیادہ گہرائی میں جا کر یہ دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی ذہن کیسے کام کرتا ہے۔ 2020 میں ڈوڈنا اور شارپین ٹیئر نے کرسپر پر اپنے کام کی وجہ سے نوبیل انعام حاصل کیا۔
سینتھیٹک بائیولوجی: جے کریگ وینٹر “ہیومن جینوم پراجیکٹ” میں بائیوٹکنالوجسٹ اور محققین کی ٹیم کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے پہلا مصنوعی بیکٹیریا تیار کیا۔ انہوں نے کسی زندہ بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے یا تیار کیے جانے والے بیکٹریا کی بجائے تجربہ گاہ میں ایک مصنوعی بیکٹیریا سے جینوم تیار کیا۔ وینٹر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بل بانیائی اور بل پیک نامی دو سائنس دانوں نے مصنوعی جینز بنانے کی خاطر اپنی مہارتوں کے ملاپ کو سیمی کنڈکٹر کی تیاری اور جینوم کی ترتیب میں استعمال کیا۔ اُن کی “ٹوسٹ بائیو سائنس” نامی کمپنی بائیو ٹکنالوجی میں تحقیق و ترقی اور مصنوعی جانداروں کی تیاری میں سائنس دانوں کی مدد کرنے کی خاطر کمپنیوں کو مصنوعی جینز فراہم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ تحقیق و ترقی کے اس کام میں نئی مصنوعات کی تیاری بھی شامل ہے۔ اس کی ایک مثال ایسی اینٹی بائیوٹک دوائیں تیار کرنا ہے جنہیں بیکٹیریا بے اثر نہ بنا سکے۔
انسانی اعضا کی تیاری: سائنس دانوں کو انسانوں کی جینوم اور تجربہ گاہوں میں جاندار اشیاء تیار کرنے کے طریقوں کی سمجھ آ گئی ہے۔ اب محققین روز افزوں تعداد میں انسانی جسم کے اعضا بنانے کے لیے انسانی ٹشوز کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ “تھری ڈی بائیو تھیراپیوٹکس” کے نام سے نیویارک سٹی میں قائم کمپنی انسانی اعضا بناتی ہے۔ اس کمپنی نے جون میں اعلان کیا کہ اس نے ایک نوجوان خاتون کا نیا کان تیار کیا ہے۔ یہ خاتون پیدائشی طور پر ایک کان سے محروم تھیں۔ کمپنی نے کان بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی میں اس نوجوان خاتون کے خلیے استعمال کیےاور پھر اسے اس کی لٹکتی ہوئی جلد کے نیچے اسی جگہ لگایا جہاں پیدائشی طور پر یہ کان ہونا چاہیے تھا۔ چونکہ اِس کان میں وہ خلیے استعمال کیے گئے ہیں جنہیں اُس کے جسم سے حاصل کیا گیا ہے اس لیے جسم کی جانب سے کان کے مسترد کیے جانے کے امکانات کم ہیں۔ اِس کان کو ٹشو پرنٹنگ ٹیکنالوجی کا پہلے کامیاب طبی استعمال سمجھنے کے ساتھ ساتھ ٹشو انجینئرنگ کے شعبے میں ایک بڑی پیشرفت بھی سمجھا جا رہا ہے۔
یہ مضمون فری لانس لکھاری، بارا وائیڈا نے لکھا۔