بائیں طرف سے: کیلا بیرن، زینا کارڈمین، جیسیکا وٹکنز، یاسمین موقبلی، اور لورل اوہیرا۔ یہ سب خواتین ناسا کی 2017 کی خلاباز امیدواروں کی کلاس کی رکن ہیں۔ (NASA)
مستقبل کی 5 خلا باز (اور ایک ٹیچر) جن سے آپ کو واقف ہونا چاہیے
ناسا کی خلائی امیدواروں کی تازہ ترین کلاس میں شامل تمام پانچ خواتین نے اپنے موجودہ مقام تک پہنچنے کے لیے مہم جوئی اور سائنس کے شوق و جذبے سے کام لیا اور وہ ناسا کے سائنس دانوں کی آئندہ نسل کے لیے تحریک کا باعث ہیں۔
کیلا بیرن، زینا کارڈمین، یاسمین مقبلی، لورل او ہیرا اور جیسیکا واٹکنز، اگست2017 میں شروع ہونے والی دو سالہ کڑی تربیت کے اختتامی مراحل میں ہیں۔ انہیں18,300 سے زائد امیدواروں میں سے منتخب کیا گیا۔ یہ ناسا کو اب تک کسی ایک کلاس میں داخلے کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
زینا کارڈمین کی سائنس میں دلچسپی اوائل عمری میں ہی شروع ہو گئی تھی جس کا اندازہ اس کتاب سے ہوتا ہے جو انہوں نے ایلیمنٹری سکول میں تیار کی تھی جسے حال ہی میں انہوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے۔ ان کی تحقیقی نمائشیں انہیں قطب جنوبی سے قطب شمالی تک لے گئیں۔ وہ انتہائی چھوٹے نامیاتی اجسام پر تحقیق کرتی ہیں جو غاروں، گرم پانی کے چشموں حتیٰ کہ تیل نکلنے کی جگہوں جیسے سخت ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ کارڈمین کا خیال ہے کہ زمین پر انتہائی سخت حالات میں زندہ رہنے والے نامیاتی اجسام پر تحقیق سے سائنس دانوں کو دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لورل اوہارا نے گویا کہ ناسا کی دہلیز پر پروش پائی۔ وہ جانسن خلائی مرکز سے صرف 53 کلومیٹر کے فاصلے پر رہتی تھیں جہاں آج یہ امیدوار زیرتربیت ہیں۔ طالب علم کی حیثیت سے انہوں نے ناسا کے متعدد پروگراموں میں شرکت کی جن کی بدولت انہیں جدید فلائٹ ٹیکنالوجی سے واقفیت حاصل ہوئی۔ انہوں نے نجی شعبے میں خلابازی کی انجینئر کے طور پر پیشہ اپنایا جس میں انہیں ریموٹ سے چلنے والی ویسی ہی گاڑیوں پر کام کرنے کا موقع ملا جو ناسا کا ادارہ آجکل اپنی سیاروی تحقیق میں استعمال کرتا ہے۔
ٹویٹ کا ترجمہ
گزشتہ ہفتے میں نے وہ خلائی لباس پہنا جسے میں ‘نیوٹرل اچھال تجربہ گاہ’ میں زیرآب تربیت کے لیے استعمال کروں گی۔ خوش قسمتی سے ہمیں حقیقی معنوں میں پیدل نہیں چلنا تھا۔ اس لباس کا وزن 300پاؤنڈ ہے! یہ دلچسپ اور مشکل کام تھا اور مجھے خوشی ہے کہ اس دوران ہر قدم پر مدد کے لیے لباس سے متعلق انجینئروں کی بہترین ٹیم موجود تھی۔
Last week I got to try on the space suit I’ll use to train underwater at the Neutral Buoyancy Lab. Luckily we don’t actually have to walk anywhere – the suit weighs 300lb! It was challenging and I’m glad to have an excellent team of suit engineers helping every step of the way. pic.twitter.com/yEbA7InDib
جیسیکا واٹکنز ناسا کی تحربہ گاہوں میں برسوں کام کرتی رہی ہیں۔ ارضیات میں ڈاکٹریٹ کی حامل جیسیکا مریخ کی ارضی ساخت میں ارتقا پر تحقیق کرتی ہیں۔ وہ مریخ پر جانے والی ‘کیوریوسٹی‘ نامی خلائی گاڑی کو چلانے والی ٹیم کا حصہ تھیں جس نے سیارے کی سطح پر گیل نامی گڑھے میں بورون دھات دریافت کی جو اس امر کی علامت ہے کہ کسی موقع پر وہاں زندگی کا وجود ممکن تھا۔ خلاباز کی حیثیت سے واٹکنز 2030 ء میں مریخ پر جانے والے ناسا کے پہلے انسانی مشن کا حصہ ہو سکتی ہیں۔
انسٹا گرام کا ترجمہ
میری ہم جماعت جیسیکا ٹی 38 جیٹ کے تکنیکی حصے پر کسی ماہر کی طرح کام میں مصروف ہیں۔ سیاروی سائنس دان ہوابازی کی کاریگر بن گئیں! پریشانی کی بات نہیں، ہم زیرنگرانی تھے۔ دیکھ بھال کی صلاحیت ہماری تربیت کا ایک اہم حصہ ہے۔
یہ دیکھ کر مجھے ایف 18 پر رینچ گھمانے کے دن یاد آ گئے۔
کیلا بیرن نے’سمتھسونین قومی فضائی و خلائی عجائب گھر’ میں چند خلابازوں سے ملاقات سے قبل خلائی شعبے میں کوئی پیشہ اختیار کرنے کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ وہ پہلے ہی بحریہ میں آبدوز کی اولین خاتون افسر بن کر ایک تاریخ رقم کر چکی ہیں۔ جب بیرن نے ناسا میں شمولیت اختیار کی تو ان کے افسر اور امریکی بحریہ کی اکیڈمی کے سپرنٹنڈنٹ نے‘بالٹی مور سن’ اخبار کو بتایا کہ ”امریکہ کو ان سے پیار ہو جائے گا۔”
انسٹا گرام کا ترجمہ
مجھے کیپ کینیورل ایئر فورس سٹیشن پر پیری سکوپ دیکھنے کی توقع نہیں تھی! لانچ کمپلیکس 14 میں، جہاں سے امریکہ کے چند ابتدائی خلاباز خلا میں روانہ کیے گئے، انتہائی بھاری کنکریٹ اور سٹیل سے بنی مشاہدہ گاہ تھی جہاں راکٹ چلانے کا بٹن تھا۔ اس مشاہدہ گاہ میں موجود ٹیم کو پیری سکوپ کے ذریعے اس محفوظ جگہ سے راکٹ داغے جانے کی نگرانی کا موقع ملا۔ یہاں ‘مستقل رخ اور گھٹتے فاصلے کی تکنیک’ ایک بالکل نیا مفہوم اختیار کر لیتی ہے! #پیریسکوپ
یاسمین موقبلی اس وقت سے ناسا کی جانب سے بلائے جانے کی تیاری کر رہی تھیں جب چھٹی جماعت میں تعلیم کے دوران خلا میں پہلی خاتون کے موضوع پر ایک منصوبے نے اِن میں حیران کن جذبہ پیدا کیا۔ انہوں نے ہائی سکول میں خلائی کیمپ میں شرکت کی اور ‘ایم آئی ٹی’ میں فضائی انجینئرنگ کی تعلیم پائی۔ جب میرین کور میں بھرتی کرنے والے ایک شخص نے انہیں بتایا کہ ہوابازی ناسا کے خلابازی کے عملے میں شمولیت کی ضامن ہے تو انہوں نے میرین میں لڑاکا طیارے کی پائلٹ کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ موقبلی کا خاندان اس وقت ایران سے امریکہ آیا جب وہ نوعمر تھیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں ان کے اختیار کردہ وطن کی بدولت ہی یہ موقع ملا۔
ٹویٹ کا ترجمہ
#NASA کے فوٹو گرافر @Joshvalphoto کا شکریہ کہ انہوں نےگزشتہ جمعے ناسا کی ”نیوٹرل اچھال تجربہ گاہ” میں تربیت کے دوران مدد کرتی ہوئی میری رہنما اور تجربہ کار #astronaut ٹریسی کالڈویل ڈیسن کے ساتھ میرے اس لمحے کو تصویری شکل میں محفوظ کیا۔ #newastronauts pic.twitter,com/W1Hqp1Uz9H
زیرتربیت یہ پانچ خلاباز نوعمر لڑکیوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں اور لاری سلوین جیسی ‘سٹیم’ مضامین پڑہانے والی ٹیچر اِنکی بے حد قدردان ہیں۔ سلوین ورجینیا میں’ ڈسکوری منصوبہ’ نامی جماعت میں پڑھاتی ہیں جو ناسا کا تیار کردہ غیرنصابی ‘سٹیم’ کورس استعمال کرتی ہیں۔ اس کا مقصد سائنس دانوں، انجینئروں اور ریاضی دانوں کی آئندہ نسل کو تحریک دینا ہے۔
ان کا تجربہ ہے کہ نوعمری میں طالبات ‘سٹیم’ کے حوالے سے پرجوش ہوتی ہیں مگر جب وہ بڑی ہوتی ہیں تو ان مضامین میں ان کی حوصلہ شکنی ہونے لگتی ہے۔ نوعمری کا جوش وجذبہ برقرار رکھنے کے لیے وہ انہیں سائنس دانوں اور خلابازوں کے بچپن کے بارے میں بتاتی ہیں اور ستاروں پر کمند ڈالنے کے لیے اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں پر قابو پانا سکھاتی ہیں۔ زیرنظر ویڈیو میں مزید سنیے کہ کیسے سلوین خواتین کی آئندہ نسل کی سائنسی میدان میں حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔