یوکرین میں آرتھوڈوکس چرچ کے ایک آرچ بشپ بتاتے ہیں، ”یہاں بالکل امن نہیں ہے اور روزانہ گولہ باری ہوتی ہے۔” یہ ہے مشرقی یوکرین میں روس کے زیرقبضہ علاقے کی موجودہ صورتحال ہے۔

Children waving from bus to person waving back (© Evgeniy Maloletka/AP Images)
2017ء میں بس کی کھڑکی سے بچے ڈونیٹسک کے علاقے سے روانہ ہونے سے قبل اپنے رشتے داروں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے ہیں۔ اِن بچوں کو یہاں سے نکال کے 140 کلومیٹر دور ایک شہر میں لے جایا جا رہا ہے۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

ڈونیٹسک اور ماریا پول کے آرچ بشپ سرہی کہتے ہیں کہ بے شمار عارضی جنگ بندیوں کے باوجود روس کے زیرقیادت فوج نے مشرقی یوکرین کے ڈونباس خطے میں فوجی حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

Ukraine map showing Donbas region (State Dept./S. Gemeny Wilkinson)
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson)

سرہی کا شمار اندرون ملک بے گھر ہونے والے ان 15 لاکھ افرد میں ہوتا ہے جنہیں روس کے زیرتسلط علاقے کو مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ وہ ڈونیٹسک سے 115 کلومیٹر دور شہر، ماریا پول چلے گئے ہیں۔ تاہم اتنے طویل فاصلے سے بھی انہوں نے اپنے “ہاؤس آف مرسی” نامی محتاج خانے کا انتظام  چلانا جاری رکھا ہوا ہے۔ اس ادارے کو ان کا چرچ ڈونیٹسک کے  علاقے میں 19 سال سے چلا رہا ہے۔

سرہی کہتے ہیں کہ گزشتہ چار ماہ سے ان کے علاقے میں حالات بد سے بدتر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اب لوگوں کی بڑی تعداد کو رہائش، خوراک اور روزگار کےلیے ان کے چرچ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

سرہی نے ای میل کے ذریعے بتایا، ”اب لوگوں کو خاطرخواہ مقدار میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے۔ ہم ہفتے میں تین مرتبہ خوراک، دوائیں، ڈائپر اور صحت و صفائی کی اشیا وہاں سے بھیجتے ہیں۔ ان اشیا اور دواؤں کی فی کس مطلوبہ مقدار محدود ہونے سے مسئلہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہر ماہ یہ اشیا اور ادویات خصوصاً انسولین مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔”

یوکرین کے لاکھوں لوگ اپنی زندگیوں کی بقا کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ 2014 سے اب تک مشرقی یوکرین میں روسی جارحیت کے نتیجے میں ہزاروں گھر، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔ پانی اور بجلی جیسی سہولتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بارودی سرنگوں اور غیرتباہ شدہ بارودی مواد سے بھی یوکرین کے شہریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔

سرہی بتاتے ہیں کہ نقل و حمل مہنگی اور بہت سے ناکوں نیز لمبی قطاروں کے باعث ان کی فراہمی تیزی سے مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

امریکہ، عالمی اور غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر یوکرین میں متاثرہ لوگوں کو زندگی کے تحفظ میں مدد دینا جاری رکھے ہوئے ہے۔

Compilation with two photos: People gathered in large room packing things into boxes; close-up of hands packing food into box (Both © Evgeniy Maloletka/AP Images)
روس کے زیر تسلط علاقے سے عین شمال میں واقع حکومتی قبضے میں شہر، اوڈیوکا میں رضاکار شہریوں میں ضروریات زندگی کی امدادی اشیا تقسیم کر رہے ہیں۔ (© Evgeniy Maloletka/AP Images)

جنگ شروع ہونے کے بعد سرہی کے چرچ سمیت علاقے میں دیگر چرچ لوگوں کو امداد مہیا کر رہے ہیں۔ مذہبی رہنما اور تربیت یافتہ رضاکار روس کے زیر تسلط علاقے میں لوگوں کو گرم کھانا، ضروری اشیا اور نفسیاتی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔

Woman walking with child, overlaid by facts about Ukrainian conflict (State Dept./S. Gemeny Wilkinson; photo © Evgeniy Maloletka/AP Images)
مشرقی یوکرین میں تصادم چکائی جانے والی قیمتیں۔ (State Dept./S. Gemeny Wilkinson; photo © Evgeniy Maloletka/AP Images)

تاہم سرہی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امداد ریڈ کراس جیسے مسلمہ عالمی اداروں کے ذریعے آنی چاہیے اور ریڈکراس کو ہی ضرورت مندوں میں یہ امداد براہ راست تقسیم کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ”اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امداد جنگجوؤں کے ہاتھ لگ گئی تو پھر یہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ پائے گی۔”

اب انہیں خدشہ ہے کہ یوکرین کے لیے امداد میں کمی آ رہی ہے جبکہ انسانی بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”طویل جنگ کے باعث بہت سے رضاکار، مالی معاونین اور عطیات دہندگان اکتا چکے ہیں۔ اب امداد بہت ہی قلیل مقدار میں آ رہی ہے۔”

سرہی کا کہنا ہے، ”وہ دنیا میں ہر اس شخص کے مشکور ہیں جس نے ہمارے لوگوں کے مسائل کا خیال رکھا اور ایسے مشکل اوقات میں انہیں زندہ رہنے میں مدد کر رہا ہے۔”

وہ کہتے ہیں ”خاص طور پر ہم امریکہ کے مشکور ہیں جس کی حکومت اور عوام یوکرین کی مدد کر رہے ہیں۔”

امریکہ روس سے بدستور مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ یوکرین میں جارحیت بند کرے اور منسک معاہدوں کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ہیدر نوئرٹ نے مئی میں کہا،”مشرقی یوکرین میں جاری تشدد کے پیچھے کریملن کا ہاتھ  ہے اور اگر وہ چاہے تو کل ہی اس جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔”

اعلان کرائمیا

2104 میں روس نے عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈونیٹسک سے پانچ سو کلومیٹر دور یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا کو اپنا حصہ بنانے کے لیے اس پر چڑھائی کی جو دنیا بھر کی مذمت کا باعث بنی۔ امریکہ اپنے اتحادیوں، شراکت کاروں اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس جارحانہ اقدام کو مستقل مزاجی سے مسترد کرتا چلا آ رہا ہے اور روسی انخلا تک یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیے ہوئے ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 25 جولائی کو روس سے کرائمیا کا قبضہ چھوڑنے کے مطالبے کی تجدید کرنے والے ‘اعلان کرائمیا’ میں کہا، ”آزاد، منصفانہ اور خوشحال دنیا کے خواہاں ممالک کی حیثیت سے ہمیں مساوی خود مختاری کے عالمگیر اصول سے اپنی وابستگی قائم رکھنی چاہیے اور دوسرے ممالک کی علاقائی سالمیت کا احترام کرنا چاہیے۔”

پومپیو نے کہا، ”جمہوری ممالک اس بنیادی اور عالمگیر اصول پر متفق ہیں کہ کوئی ملک طاقت کے بل بوتے پر کسی دوسرے ملک کی سرحدیں تبدیل نہیں کر سکتا۔”