بیٹھے ہوئے دو آدمی باتیں کر رہے ہیں۔ (© Abbas Momani/AFP/Getty Images)
فلسطینی صدر محمود عباس ( دائیں) صدر کے معاون اور نمائندہِ خصوصی برائے مذاکرات، جیسن گرین بلیٹ کے ہمراہ۔ (© Abbas Momani/AFP/Getty Images)

عرب اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں امریکی صدارتی معاون اور عالمی مذاکرات کے نمائندہِ خصوصی، جیسن گرین بلیٹ نے “ہاتھ میں آئے امن کے ایک موقعے” کی نشاندہی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ  انہوں نے فلسطینی قیادت سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بے مصرف لفاظی، غلط دعووں اور ایسے متشدد اقدامات سے دستبردار ہو جائیں جو امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

گرین بلیٹ نے غزہ کے عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر مہیا کی جانے والی امداد کی فراہمی کی کوششوں میں حائل ایسی ہی رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے۔

الفاظ کے نتائج ہوتے ہیں

گرین بلیٹ نے حالیہ دنوں میں غزہ میں کیے جانے والے اُن مارچوں کے حوالے سے فلسطینی دعووں کی نشاندہی کی جن میں اسرائیل کے ساتھ سرحد پر لگی باڑ توڑنے اور اسرائیلی شہریوں پر حملے کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ فلسطینی مذاکرات کار صائب ارکات  کے اسرائیل کے “نسلی صفائی، قتل عام” اور “سفاک” مبینہ حملوں کے دعووں کے برعکس، گرین بلیٹ نے بتایا کہ مارچ کرنے والے 80 فیصد لوگ پرامن مظاہرین نہیں بلکہ حماس کے آلہ کار تھے۔

گرین بلیٹ نے حماس اور دیگر عسکری گروہوں کی جانب سے حالیہ عرصہ میں “راکٹ حملوں میں نمایاں اضافے” کا حوالہ بھی دیا۔

حالیہ راکٹ حملوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ ایک راکٹ اسرائیل کے شہری آبادی میں گرنے کے بجائے غزہ کے بجلی گھر پر جا گرا جس سے علاقے میں بجلی کی قلت کا مسئلہ مزید ابتر ہوگیا۔

امریکی نمائندے نے دنیا بھر پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی امداد بھیجیں مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے مارچ میں امدادی کوششوں کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا۔

Jason Greenblatt quote on honest, realistic and decisive solutions for Palestinian people

 نئی فلسطینی آوازیں

گرین بلیٹ نے ارکات اور “ایسی باتیں دہرانے والے دیگر حکام” کا بہت سے فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی نجی بات چیت میں سامنے آنے والے اُن موقفوں سے موازنہ کیا جو 16 ماہ میں امریکی نمائندے کی حیثیت سے اُن کے سامنے آئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے  کہ امن کے لیے ان نئی آوازوں اور تناظر کی ضرورت ہو۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ کھلے عام ایسی باتیں کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

گرین بلیٹ لکھتے ہیں ”ہم فلسطینیوں کے لیے آزاد اور ایک ایسا فروغ پذیر معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے کوشاں ہیں جہاں آزادی اظہار کو مقدم جانا جاتا ہے۔”

قیاس آرائیاں نہ کریں

خصوصی نمائندے نے صدر ٹرمپ کے اس اعلان کا اعادہ کرتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ یروشلم میں اسرائیلی خودمختاری کی مخصوص حدود اسرائیل اور فلسطینیوں میں بات چیت کے ذریعے ہی طے ہونی چاہئیں۔ اسی طرح ”امریکہ ہیکل سلیمانی المعروف حرم الشریف کے حوالے سے جوں کی توں حالت کا بدستور حامی ہے۔”

گرین بلیٹ نے اختتامی سطور میں لکھا ہے کہ امریکہ بدستور امن کے عمل کا ایک انتہائی اہم مذاکرات کار ہے۔ تاہم یہ گمان محض سراب ہے کہ اسرائیل ختم ہو رہا ہے یا یروشلم اس کا دارالحکومت نہیں ہے۔”

Jason Greenblatt quote on the 'opportunity for peace at hand'