2007 میں اسی نام سے بنائی جانے والی اسرائیلی فلم سے ماخوذ رقص و موسیقی پر مشتمل دیگر ڈراموں کی طرح ‘دا بینڈز وزٹ’ بھی ایک دھیما اور سادہ سا ڈرامہ ہے۔ باالفاظ دیگر ایسے ڈراموں کے مقبول ہونے کے کم امکانات ہوتے ہیں۔ تاہم براڈوے کے اس انوکھے کھیل نے حال ہی میں اس وقت 2018 کے ٹونی ایوارڈز کا میلہ لوٹ لیا جب 11 ایوارڈوں کے لیے نامزد کیے جانے والے اس کھیل نے رقص و موسیقی پر مبنی بہترین ڈرامے کے سب سے بڑے اعزاز سمیت 10 اعزازت جیت لیے۔
اس ڈرامے میں اسرائیلی صحرائی قصبے بیت ہاتیکوا کی منظر کشی کی گئی جو ایک شام پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ مصری پولیس کا موسیقی کا ایک طائفہ اس سے ملتے جلتے نام والے قصبے پیتھ تیکوا جا رہا ہوتا ہے مگر حادثاتی طور پر یہ طائفہ غلط جگہ پہنچ جاتا ہے۔ اگلے دن تک وہاں سے کوئی بس دستیاب نہیں ہوتی اس لیے یہ موسیقار رات بھر کے لیے وہیں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔
مقامی لوگ انہیں اپنے ہاں ٹھہرنے کی پیشکش کرتے ہیں اور جلد ہی مصریوں اور ان کے اسرائیلی میزبانوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کی زندگیاں غیرمتوقع طریقوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
کرداروں کے باہمی میل جول سے متعلق ان کہے پس منظر کی موجودگی میں یہ موسیقار اور قصبے کے لوگ موسیقی، قہقہوں اور انسانوں سے ربط کی آرزو لیے ایک دوسرے کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں حالانکہ اُن کے ممالک کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔
رقص و موسیقی پر مبنی براڈوے ڈراموں کے معمول کے خلاف اس کھیل میں گیتوں کے ذریعے کہانی کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ اس کے بجائے دھنیں بنیادی طور پر ہر کردار کے بارے میں غوروفکر کرنے کا کام دیتی ہیں۔
بعض گیت الگ تھلگ بستی میں رہنے سے لاحق ہونے والی بوریت کا اظہار ہیں جیسے (”انتظار،” ”لامقام میں خوش آمدید”) جبکہ دیگر مبہم و افسردہ ہیں جیسے (”عمر شریف”) یا کومل سا (”ہالید کا پیار کا گیت،” ”مجھے جواب دو”) ہیں۔ تاہم جیسا کہ موسیقار ڈیوڈ یازبک نے نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا، پورے ڈرامے میں ”امید، یقین اور آرزو” کی زیریں موجیں اٹھتی رہتی ہیں۔

یازبک نے اس ڈرامے کی موسیقی اور گیت تیار کیے ہیں اور ‘ دا بینڈز وزٹ‘ سے وابستہ بہت سے دیگر لوگوں کی طرح ان کا تعلق بھی مشرق وسطیٰ سے ہے۔ وہ نیویارک کے رہنے والے ہیں جبکہ ان کے اجداد کا پس منظر لبنانی اور یہودی ہے۔ ان کے شریک کار ڈرامہ نگار اتمار موسس اسرائیلی تارکین وطن کے بیٹے ہیں جن کی پیدائش کیلی فورنیا میں ہوئی جبکہ کلیولینڈ سے تعلق رکھنے والے سربراہ پروڈیوسر اورِن ولف کی شادی ایک اسرائیلی خاتون سے ہوئی ہے۔
ڈرامے کے متعدد ارکان کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے جن میں اداکار ٹونی شالوب اور جارج عبود دونوں لبنانی پس منظر کے حامل ہیں اور اداکار ایریل سیچل کے اجداد یمنی یہودی تھے۔
‘ دا بینڈز وزٹ‘ کی موسیقی قدیم عربی تصورات، جاز اور غنائی تھیٹر کا امتزاج اور ایسی مخلوط آواز ہے جو براڈوے میں کہیں اور سنننے کو نہیں ملتی اور یوں اس ڈرامے کے تخلیق کاروں کے مشرق وسطیٰ سے تعلق کا اظہار ہوتا ہے۔
فوربز رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے موسس نے ‘ دا بینڈز وزٹ‘ کی کامیابی کو اس میں پائی جانے والی مانوسیت اور جذباتی قوت نیز اس کے عالمگیر موضوعات سے منسوب کیا جو اس کے ناظرین اور نقادین دونوں کو پسند ہیں۔
موسس کہتے ہیں، ”جب آپ خود ساختہ اور انسانوں کی بنائی چیزوں، سرحدوں اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں کو نکال کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں تو لوگ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ یہ ڈرامہ وہ پیغام دیتا ہے جس کی لوگوں میں تڑپ پائی جاتی ہے۔”