ایسے میں کیا ہوگا جب مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر مخصوص اقسام کے کینسروں کی محض دو منٹوں میں تشخیص کرلیں گے۔

مشی گن کے دماغی امراض کے سرجنوں کی ایک ٹیم کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ دماغ کی سرجری کے دوران دماغی گلٹیوں کی ایک ایسے وقت میں کیسے تشخیص کی گئی جب مریض ابھی آپریشن ٹیبلوں پر ہی پڑے ہوئے تھے۔

اس تحقیق کے ایک مشترکہ مصنف دماغی امراض کے ڈاکٹر ڈینیئل اورنگر کا کہنا ہے، “مصنوعی ذہانت آپریشن روم میں ایک بیش قیمت سہولت ہے۔ عام طور پر گلٹیوں والے ٹشو اور گلٹیوں کے بغیر ٹشو میں خالی آنکھ سے فرق دیکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے بلکہ خورد بین سے بھی اسے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔”

سرجری کے بعد بالعموم امراضیا ت کے ماہروں کو ٹشو کے حاصل کردہ نمونوں کا خورد بین کے ذریعے تجزیہ کرنے اور تشخیص کرنے میں 30 منٹ لگتے ہیں۔ سرجن اتنی دیر انتظار نہیں کر سکتے اور مریض کو سرجری کے بعد طبیعت سنبھلنے والے کمرے میں بھیج دیا جاتا ہے اور ماہر امراض کی طرف سے مرتب کیے جانے والے نتائج کا انتظار کیا جاتا ہے۔

اس تحقیق کے دوران مصنوعی ذہانت کے ہوتے ہوئے تشخیص کے نتائج دو سے اڑھائی منٹ کے درمیان فراہم کر دیئے گئے۔ اس سے سرجنوں کو آپریشن روم کے اندر ہی پتہ چل گیا کہ مریض کی مجموعی حالت کیسی ہے اور یہ کہ اُس کے لیے کونسا علاج سب سے بہتر ہے۔

اورنگر نے وضاحت کی کہ مختلف گلٹیوں کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ کچھ گلٹیوں کا علاج سرجری سے کیا جاتا ہے جب کہ بعض کیمو تھیراپی اور شعاعوں سے ٹھیک ہوتی ہیں۔

انہوں نے بتایا، “گلٹیوں کو درست قسم کے طریقہ علاج سے ٹھیک کرنا مریض کی صحت کے لیے اہم ہوتا ہے۔”

اس کے علاوہ 278 مریضوں پر کی جانے والی تحقیق میں مصنوعی ذہانت اور ماہرین امراض نے یکسان تعداد میں درست تشخیص کی۔ صرف مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی کی شرح 94.6 فیصد تھی جب کہ ماہرین امراض کی جانب سے کی جانے والی شرح 93.9 تھی۔

اورنگر نے آخر میں کہا، “ہم مصنوعی ذہانت کے لیے گلٹیوں کی تشخیص کے بارے میں بہت پرامید ہیں۔ بہتر تشخیص کا مطلب بہتر علاج ہے۔ بہتر علاج کینسر کا زیادہ موثر طریقے سے علاج کرنے کے امکانات پیدا کرتا ہے۔”