Woman with bundle on her head walking past people selling bright fabric along railroad (© Rupak De Chowdhuri/Reuters)
بھارت میں ایک عورت کولکتہ میں ریل کی پٹڑی پر سجی دکان سے خریداری کر رہی ہے۔ (© Rupak De Chowdhuri/Reuters)

مضبوط معاشی ترقی کی بدولت کروڑوں لوگ غربت سے باہر آ رہے ہیں۔ یہ ترقی ناصرف امیر ممالک کے لیے مفید ہے بلکہ درجنوں غریب ممالک کو بھی اس سے فائدہ ہوا ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ 2017 میں کم آمدنی والے ممالک کی مجموعی داخلی پیداوار میں 4.3 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 3 فیصد کی عالمی شرح نمو سے تیزتر ہے۔

قریباً 70 کروڑ افراد کو انتہائی غربت کا سامنا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جن کی فی کس روزانہ آمدنی 1.90 ڈالر یا اس سے بھی کم ہے۔ 1990 میں ایسے لوگوں کی تعداد 2 ارب تھی۔ 2017 کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہے کہ اس سال عالمگیر غربت کی شرح اب تک کی کمترین سطح پر آ گئی ہے۔ نیویارک یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر  ولیم ایسٹرلے نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ “غالباً 2018 کی یہ خبر بھی اہم ترین ہوگی۔”

امریکی ٹیکس کٹوتیاں

عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق امریکہ میں کارپوریٹ اور دوسرے ٹیکسوں میں بھاری کٹوتیوں سے دنیا بھر میں مزید نمو کی توقع ہے۔ آئی ایم ایف نے 2018 اور 2019 کے لیے 4 فیصد شرح نمو کی پیشین گوئی کی ہے۔

امریکہ، دیگر ممالک اور اقوام متحدہ نے 2030 تک پوری دنیا سے انتہائی غربت ختم کرنے کا ایک ہدف مقرر کیا ہے۔

2017 میں بنگلہ دیش میں  بلند ترین شرح نمو (7.2 فیصد) دیکھی گئی اور ہمسایہ ملک بھارت میں بھی یہ شرح اس کے قریب (6.7 فیصد) رہی۔

زیادہ پرانی بات نہیں جب بنگلہ دیش کے شمالی قصبے سراج گنج میں بھوک اور بیماری مسمات منجورا خاتان، اس کے شوہر اور تین چھوٹے بیٹوں کی زندگی کا مستقل حصہ تھیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بے حد پریشان رہتی تھی۔ ہمیں ہر روز اپنی بقا کی جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔”

چاول کے بنجر کھیتوں کو پانی دینے کے ہدایتی پروگرام سمیت، عالمی ترقی کے امریکی ادارے کی مالی معاونت سے سراج گنج میں صحت، غذائیت اور کھیتی باڑی کی تربیت سے حالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ آج  منجورا خاتان کے بچے صحت مند ہیں اور انہیں اچھی خوراک میسر ہے۔ ان میں ایک ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ ماں کا کہنا ہے، “اب میں ہر لحاظ سے آگے ہوں۔”

Two children and man standing among branches and huts (© Michael Robinson Chavez/Washington Post/Getty Images)
عوامی جمہوریہ کانگو کے کان کنی کے شہر کوامہ میں اپنے گھروں کے باہر لوگ کھڑے ہیں۔ دنیا کے غریب ترین لوگوں کی نصف تعدا افریقہ میں رہتی ہے۔ (© Michael Robinson Chavez/Washington Post/Getty Images)

ماہرین معاشیات نے حساب کتاب لگایا ہے کہ دو صدیاں قبل چیدہ چیدہ  لوگوں کے سوا دنیا کی ساری آبادی کی حالت ویسی ہی تھی جسے آج انتہائی غریب کہا جاتا ہے۔ یہ آبادی بھوک اور کمزور صحت کا شکار تھی۔

افریقہ کے ذیلی صحارا کے خطے میں انتہائی غربت تاحال زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے انفرادی ممالک  کے حالیہ اندازوں کے مطابق نائجیریا میں قریباً آٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ افراد جبکہ جمہوریہ کانگو میں پانچ کروڑ پچاس لاکھ انتہائی غربت میں رہتے ہیں۔

غربت سے نجات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی ترقی کے باوجود بھارت میں انتہائی غربت کا شکار لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ برس بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی میں یہ تعداد 21 کروڑ 80 لاکھ  رہی۔ تاہم بھارت اپنے نجی شعبے کو ترقی دینے اور تیزتر معاشی نمو کے لیے اقتصادی اصلاحات لا رہا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں حیدرآباد میں منعقدہ کاروباری نظامت کی عالمی کانفرنس میں ان کوششوں کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔

بروکنگ انسٹیٹیوشن کے ماہر معاشیات اور ‘غربت کی عالمگیر گھڑی‘ کے موجد ہومی خراس کہتے ہیں کہ انتہائی غربت کے خلاف جنگ میں 50 ممالک دوسروں سے پیچھے ہیں۔

اس کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ربع صدی کے دوران ہر روز ایک لاکھ 37 ہزار افراد نے غربت سے نجات پائی ہے۔