امریکہ عالمگیر سطح پر مظالم کی روک تھام، ان میں کمی لانا اور اِن کا مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کو اجاگر کر رہا ہے۔

16 ستمبر کو امن کے امریکی انسٹی ٹیوٹ کی میزبانی میں ہونے والی ایک تقریب میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کی تصادموں کو روکنے اور استحکام لانے کی کاروائیوں کی اسسٹنٹ سیکرٹری، ڈینیز نیٹلی نے کہا، “جب ہم کہتے ہیں ‘دوبارہ کبھی نہیں’ تو اس کا مطلب الفاظ سے بڑھکر کہیں زیادہ ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہرحال میں واضح اور بروقت کاروائی ہونا چاہیے۔”

امریکی حکومت خطرات کا جائزہ لینے اور یہ نشاندہی کرنے کے لیے ڈیٹا جمع کرتی ہے کہ مظالم کہاں ڈھائے جا رہے ہیں، مظالم کم کرنے یا روکنے کے لیے سکیورٹی کے اہلکاروں کو تربیت دیتی ہے، اور انصاف اور احتساب کے فروغ کے لیے بین الاقوامی اور مقامی سربراہی میں کی جانے والی کوششوں کو آگے بڑہاتی ہے۔

محکمہ خارجہ کے جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت کے ڈپٹی سیکرٹری، سٹیون گلن نے اس ترجیح میں مدد کرنے کے سلسلے میں دسمبر 2019 میں جوہانسبرگ میں ہونے والے تربیتی پروگرام اور اس سال موسم گرما میں ہونے والے ورچوئل تربیتی پروگرام کا ذکر محکمہ خارجہ کی ٹھوس مثالوں کے طور پر کیا۔ یو ایس ایڈ نے افریقہ کے ساحل کے علاقے اور جنوبی سوڈان میں دفتر سے باہر کام کرنے والے اپنے عملے کے لیے مظالم کی روک تھام کی تربیت کا اہتمام کیا۔

ایلی ویزل نسل کشی اور مظالم کی روک تھام کے 2018 کے قانون کے تحت امریکی حکومت پر مظالم کو روکنا، کم کرنا اور ان کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی کی پیروی کرنا لازم ہے۔

عالمگیر مجرمانہ انصاف کے لیے امریکہ کے عمومی سفیر، مورس ٹین نے کہا، “ہم مظالم کو روکنے، مظالم کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے، اور مظالم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔”

امریکہ بین الاقوامی مجرمانہ انصاف میں ایک نئے رجحان، معلومات جمع کرنے کے بین الاقوامی طریقہائے کاروں کی تیاری، اور مشترکہ مقاصد کے لیے اتحادیوں کی طرف سے اپنا مالی حصہ ڈالنے کے وعدوں کی حمایت کرتا ہے۔

شام اور عراق میں یہ رجحانات اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 2016ء میں تشکیل کردہ “عرب جمہوریہ شام میں 2011ء سے لے کر آج تک کیے گئے سنگین ترین جرائم کے ذمہ داروں پر بین الاقوامی قانون کے تحت مقدمات چلانے میں بین الاقوامی، غیرجانبدار، اور آزاد طریقہائے کاروں میں معاونت کرنے” کے پروگرام کی حمایت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 2017 ء میں داعش کے مظالم کے شواہد اکٹھے کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے “داعش/آئی ایس آئی ایل کی جانب سے کیے گئے جرائم پر احتساب کو آگے بڑہانے کے لیے تشکیل دی گئی تحقیقاتی ٹیم” کی حمایت کا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ داعش کے یہ مظالم نسل کشی، جنگی جرائم، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہوں۔

یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دنیا کے ممالک ظالمانہ جرائم کی اطلاع دینے میں مانع خوف کو دور کریں۔ اس ضمن میں انہیں انسانی حقوق کی پامالیوں کی اطلاعات دینے والے متاثرین اور گواہوں کے تحفظ کے لیےعملی طور پر کام کرکے دکھانا ہوگا۔

امریکہ جنگی جرائم (کے مجرموں کو پکڑنے کے) انعام کے پروگرام کے تحت جنگی جرائم کے مرتکب ملزموں کی تلاش میں بھی اپنا مالی حصہ ڈالتا ہے۔ اس پروگرام کے ذریعے جرائم، نسل کشی، اور انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے میں بین الاقوامی، عام عدالتوں یا دونوں قسم کے ملے جلے ٹربیونلوں کو مطلوب، خاص طور پر نامزدہ کردہ افراد کی گرفتاری، حوالگی یا مجرم ثابت کرنے والی معلومات پر پچاس لاکھ ڈالر تک کا انعام دیا جاتا ہے۔

اس وقت اس پروگرام کی توجہ روانڈہ کے اُن چھ شہریوں پر مرکوز ہے جو ابھی تک مفرور ہیِں۔ یہ لوگ روانڈہ کی 1994ء کی نسل کشی میں اپنے مبینہ کرداروں کی وجہ سے مطلوب ہیں۔ نامزد کردہ روانڈہ کا ایک شہری، فلیشیئن کبوگا کو حال ہی میں فرانس میں گرفتار کیا گیا۔ کبوگا پر نسلی کشی کی مالی اعانت کرنے اور اُس بدنامِ زمانہ یعنی “ریڈیو ٹیلی ویژن لیبرے دو ملے کولینز” کا شریک بانی ہونے کا الزام ہے جس سے ٹٹسی قبیلے کے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں نشر کی جاتی تھیں۔

امن کے امریکی انسٹی ٹیوٹ میں ہونے والی ایک تقریب میں محکمہ خارجہ کی منشیات اور قانون کے نفاذ کے امور کی اسسٹنٹ سیکرٹری، کرسٹین ڈی میڈیسن نے مظالم کی روک تھام میں پولیس اور مجرمانہ انصاف کے عہدیداروں کے اہم کردار پر زور دیا۔

میڈیسن نے سکیورٹی کے شعبے میں عورتوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی اہمیت کے بارے میں بھی بات کی۔ عورتیں اور لڑکیاں تصادم کی صورت میں غیرمتناسب تعداد میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور انہیں اکثر جان بوجھ کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب پولیس میں عورتوں کی فیصد شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو جنسی حملوں سمیت صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کی رپورٹوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہولوکاسٹ کے یادگار عجائب گھر سمیت، محکمہ خارجہ اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ مجرمانہ انصاف کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کی ظلم کے خطرے کے عوامل اور شروع کی انتباہی علامتوں کو پہچاننے اور اُن سے نمٹنے میں مدد کی جا سکے۔

اس کے علاہ، یو ایس ایڈ کے تصادم اور تشدد کی روک تھام کے مرکز کے ڈائریکٹر، ریان مککینل کے مطابق یو ایس ایڈ نفرت پر مبنی تقاریر پر نظر رکھتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ مظالم کی ایک ابتدائی علامت ہو۔

مککینل نے کہا کہ اسی طرح یو ایس ایڈ خطرات کے اہم عوامل سے نمٹ کر اور اُن جھٹکوں کے مقابلے میں لچک کو مضبوط بناکر، مظالم کی روک تھام میں مدد کرکے ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے جن کا نتیجہ وسیع پیمانے پر کیے جانے والے مظالم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ یہ کام وہ دنیا بھر میں پھیلے اپنے عملے کے ذریعے کرتا ہے۔