
برمی عوام کی وسیع امریکی حمایت کے طور پر امریکہ پرامن مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار برمی فوجی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
برمی فوج نے یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد برما کے عوام کے جمہوریت بحال کرنے کا مطالبہ کرنے پر اُن کے خلاف کاروائیاں کی ہیں اور سیاسی مخالفین کو گرفتار کرتے ہوئے سینکڑوں پرامن مظاہرین اور دیگر عام لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
اس کے ردعمل میں حال ہی میں امریکہ نے تشدد کو بڑہاوا دینے کے ذمہ دار برمی عہدیداروں اور فوجی یونٹوں پرپابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ فوج کی مدد کرنے والی دو کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی جے بلنکن نے 25 مارچ کو کہا، “اُن کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی۔ (اس کے علاوہ) فوج کے معاشی مفادات، اور برمی فوج کے وحشیانہ جبر میں مدد کرنے والے مالی وسائل کو (بھی) نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ پابندیاں برما کے عوام کے خلاف نہیں ہیں۔”

حالیہ امریکی پابندیوں میں برما کی پولیس کے سربراہ، تھان ہلینگ اور خصوصی کاروائیوں کے بیورو کے ایک کمانڈر، لیفٹننٹ جنرل آنگ سو کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دیگر امریکی پابندیوں سے حملوں کے ذمہ دار فوجی ڈویژنوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق 23 فروری کو منڈالے میں 33ویں لائٹ انفنٹری ڈویژن کے فوجیوں نے ایک ہجوم پر فائرنگ کی جبکہ 33ویں اور 77ویں لائٹ انفنٹری ڈویژن دونوں، برمی فوج کے مہلک طاقت کے استعمال کے منصوبوں میں مدد کر رہے ہیں۔
امریکہ نے اُن دو کمپنیوں کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے جو فوج کی مالی مدد کرتی ہیں۔ ان کے نام میانمار اکنامک ہولڈنگ پبلک کمپنی لمیٹڈ اور میانمار اکنامک کارپوریشن لمیٹڈ ییں۔
پابندیوں کے لیے یہ نامزدگیاں برما کے اُن موجودہ یا سابقہ عہدیداروں کے خلاف فروری میں لگائی جانے والی پابندیوں کے بعد لگائی جا رہی ہیں جو فوجی حکومت سے وابستہ ہیں یا بغاوت یا مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار ہیں۔
یورپی یونین نے بھی 22 مارچ کو بغاوت اور اس کے بعد ہونے والے تشدد کے سلسلے میں 11 افراد کو پابندیوں کے لیے نامزد کیا ہے۔ ان 11 افراد میں بعض وہ عہدیدار بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ پہلے ہی پابندیوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔
امریکہ لگ بھگ 1,600 برمی شہریوں کو عارضی حیثیت میں امریکہ میں رہنے کی اجازت دے رہا ہے تاکہ اُنہیں تشدد میں گھرے ملک برما میں واپسی کے نتیجے میں لاحق خطرات کے خلاف تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے وزیر الیخاندرو این میورکاس نے 12 مارچ کو برمی شہریوں کو عارضی تحفظ کی پیشکش کی جس کے نتیجے میں وہ برمی شہری جو پہلے ہی سے امریکہ میں موجود ہیں 18 ماہ تک امریکہ میں رکنے کے اہل ہوں گے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان، نیڈ پرائس نے 25 مارچ کو بچوں سمیت چند دن قبل کم از کم 27 افراد کی ہلاکتوں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے کہا، “امریکہ کو برما کی سکیورٹی فورسز کی طرف سے برمی عوام کے خلاف مہلک طاقت استعمال کرنے کی خبروں سے صدمہ پہنچا ہے اور امریکہ انتہائی غمزدہ ہے۔”
“بچوں کے خلاف ایسی گھناؤنی اور وحشیانہ حرکتیں، جن میں ایک سات سالہ بچی کو اُس وقت گولی مارنا بھی شامل ہے جب وہ اپنے والد کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی، برما کی فوجی حکومت کی اپنے ہی لوگوں پر حملوں کی بھیانک نوعیت کا ایک اور عملی ثبوت ہے۔”