
جب ٹریور ہچنسن نے سب سے پہلے پراکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی) کمپنی میں مصنوعات سازی کے شعبے میں کام کرنا شروع کیا تو انہوں نے اپنے دن کا ابتدائی حصہ فیکٹری میں مختلف اشیا بنانے والی مشینوں پر کھڑے ہوکر اور چل پھر کر کام کرنے اور دوپہر کے بعد کا حصہ ملاقانوں اور کانفرنسوں کے لیے مختص کیا تاکہ اپنے پاؤں پر بوجھ ڈالنے کے وقت کو کم از کم سطح پر لا سکیں۔
ہچنسن اس وقت رسدی شعبے کے لیڈر ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران اُن کے لیے اپنے کام کے دوران ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا دشوار ہو چکا ہے۔ ہچنسن کو موروثی طور پر “سپاسٹک پیراپریسیس” کی بیماری لاحق ہے جو کہ ایک تدریجی مرض ہے جس میں ٹانگیں اکٹر کر کمزور ہوتی جاتی ہیں اور لمبے فاصلے تک چلنے میں مشکل پیش آنے لگتی ہے۔
“جب آپ اپنا کام ختم کرنے کے بعد (مہینے کے) چار میں سے تین ہفتوں میں اپنی گاڑی تک نہ پہنچ سکتے ہوں اور آپ پارکنگ میں گر جاتے ہوں تو پھر آپ کو احساس ہو جاتا ہے کہ آپ کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔”
ہچنسن نے اپنی آجر کمپنی، پی اینڈ جی جو کہ امریکہ میں صارفین کے استعمال کی اشیا بنانے والی سب سے بڑی کارپوریشن ہے، سے پوچھا کہ کیا وہ کسی ایسی شفٹ کا انتخاب کر سکتے ہیں جس کے دوران وہ صبح کے وقت دفتر میں اور سہ پہر کے وقت گھر سے کام کر سکیں کیونکہ صبح کے وقت اُن کے لیے دفتر میں کام کے سلسلے میں آنا جانا آسان ہوتا ہے۔ انہوں نے کمپنی سے یہ بھی کہا کہ انہیں گھر پر استعمال کرنے کے لیے ایک کمپیوٹر بھی فراہم کیا جائے تاکہ انہیں وزنی لیپ ٹاپ اور بیگ گھر لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ پی اینڈ جی نے ہچنسن کی دونوں باتیں مان لیں۔
1990 کے معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون (اے ڈی اے) کے تحت ہچسنسن کو اِن سہولتوں کی فراہمی کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل تھا۔ اس قانون کے تحت حاصل تحفظ کا بنیادی مقصد عدم امتیاز اور برابری ہے۔ افرادی قوت میں معذوریوں کے حامل افراد کی شمولیت کو فروغ دینے کی خاطر، “ڈس ایبلٹی:اِن” کے نام سے ایک قومی تنظیم قائم ہے اور جان آنند اس کے واشنگٹن میٹروپولیٹن کے علاقے کے دفتر کے بورڈ کے رکن ہیں۔ آنند بتاتے ہیں کہ 15 یا زیادہ ملازمین رکھنے والے آجروں کو معذوری کے حامل افراد کے ساتھ امتیازی سلوک برتنے کی ممانعت ہے۔
اس سب کا نچوڑ یہ ہے کہ آجر کسی معذوری کی وجہ سے ملازمیں کو نہ تو برطرف کرسکتے ہیں اور نہ ہی ترقی دینے سے انکار کرسکتے ہیں۔ انہیں کسی بھی معذوری کے حامل اُن سب ملازمین کو کام کرنے کی تمام مناسب سہولتیں فراہم کرنا ہوتی ہیں جنھیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے ان سہولتوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
آنند کا کہنا ہے کہ 26 جولائی 1990 کو بننے والا اے ڈی اے کا قانون نہ صرف اس لیے ایک تاریخی لمحے کی نمائندگی کرتا ہے کہ اس کا اطلاق وسیع پیمانے پر ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے آجروں کو معذور افراد کو ایک فرد کی حیثیت سے قبول کرنے میں مدد کی۔ آنند کے مطابق یہ قانون اس سوچ کی نفی کرتا ہے کہ جس کارکن کو اپنا کام کرنے کے لیے مناسب سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے ساتھ کوئی خصوصی سلوک کیا جا رہا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، “سب سے اچھے آجر جانتے ہیں کہ اے ڈی اے حقیقی معنوں میں سب کی شمولیت کی حامل افرادی قوت کی تعمیر کا محض ایک نقطہ آغاز ہے۔”

رسدی سلسلے کے لیڈر کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ ہچسنسن اس کمپنی کے شمالی امریکہ کے معذوریوں کے حامل افراد کے مابین مطابقت پیدا کرنے/ملازمین کے وسائل کے گروپ کے لیڈر بھی ہیں۔ جزوی طور پر یہ گروپ اس بات کو یقینی بنانے میں ہاتھ بٹاتا ہے کہ معذور ملازمین کو وہ تمام وسائل میسر ہوں جن کی انہیں کامیاب ہونے کے لیے ضرورت ہے۔
ہچنسن بتاتے ہیں، “معذور افراد کو جس طرح سے اپنے آپ کو مختلف صورت حالات میں ڈھالنا پڑتا ہے اس کی وجہ سے اُن میں بعض زبردست طاقتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔”
پی اینڈ جی جیسے امریکی آجر جانتے ہیں کہ معذوری کے حامل افراد کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ میں طاقتیں پیدا کرنا ہوتی ہیں۔ کمپنیوں نے یہ جان لیا ہے کہ یہی طاقتیں مصنوعات کی تیاری میں اُن جدت طرازیوں اور بصیرتوں کو مہمیز دیتی ہیں جن سے کاروباری عمل بہتر ہو سکتے ہیں۔ معذور افراد کی ضروریات پورا کرنا اُن کی پیشہ وارنہ کامیابی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ کام کی ایسی جگہیں بھی تشکیل پاتی ہیں جہاں تمام ملازمین کو بہتر تجربات حاصل ہوتے ہیں۔