معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون کا مقابلوں کو منصفانہ بنانے میں کردار

تتیانا میک فیڈن  پیدائشی طور پر “سپائنا بیفیڈا” نامی ریڑھ کی ہڈی کے عارضے میں مبتلا ہیں، جس کے باعث ان کے جسم کا کمر سے نیچے کا حصہ مفلوج ہے۔ تاہم جب وہ 10 برس کی تھیں تو ان میں یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ اُنہیں ایک پیرا اولمپک ایتھلیٹ بننا ہے۔

اس منزل تک پہنچنے میں معذوریوں کے حامل امریکیوں سے متعلق قانون (اے ڈی اے) نے ان کی مدد کی۔ کھلاڑیوں سمیت، 1990ء  کا شہری حقوق کا یہ قانون لوگوں کی روزمرہ زندگیوں میں وسیع تبدیلیاں لے کر آیا۔ اس قانون کے تحت  اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ خواہ آپ کھیل کے میدان میں ہوں یا تماشائیوں کے بینچوں پر بیٹھے ہوں، آپ کو کھیل سے لطف اندوز ہونے کا مساوی موقع ملنا چاہیے۔ 26 جولائی، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کی جانب سے اے ڈی اے قانون پر دستخط کرنے کی 27ویں سالگرہ ہے۔

Two men running on track, one wearing blindfold (© AP Images)
ریو ڈی جنیرو میں ریو 2016 پیرالمپک کھیلوں کے آغاز کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہونے والے دوڑوں کے ایک مقابلے میں امریکہ کے ڈیوڈ براؤن، بائیں جانب، اپنے گائیڈ کے ہمراہ دوڑ رہے ہیں۔ (© AP Images)

اب تک میک فیڈن 17 پیرالمپک تمغے جیت چکی ہیں جن میں 2016 کے ریو ڈی جنیرو پیرالمپک کھیلوں میں جیتے جانے والے چار سونے اور دو چاندی کے تمغے بھی شامل ہیں۔

میک فیڈن بتاتی ہیں، “میں تو صرف یہ چاہتی تھی کہ اپنے ہائی سکول کی ٹریک ٹیم میں شامل ہو جاوًں۔” جب ان کے سکول نے انہیں دوسرے کھلاڑیوں کے ہمراہ اپنی وہیل چیئر پر دوڑ میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی تو انہوں نے اس فیصلے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ انہوں نے  پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا۔ وہ صرف مقابلے میں شرکت کا حق چاہتی تھیں۔

میک فیڈن نے کہا، “یہ وہ وقت تھا جب اے ڈی اے نافذ ہوا۔” میک فیڈن کو چھ برس کی عمر میں روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ سے گود لیا گیا تھا اور وہ کلارکس ویل، میری لینڈ میں پلی بڑھیں۔

معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون کے تحت کھیلوں کے مقابلوں کی منتظم تنظیموں پر یہ لازم ہے کہ وہ ہر ایسے فرد کو جو کسی دماغی، نشوونما سے متعلق، جسمانی یا کسی اور معذوری کا حامل ہو، ٹیموں میں شامل ہو کر کوشش کرنے اور  مقابلہ کرنے کے مساوی مواقع  فراہم کریں۔ ان تنظیموں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مقابلوں میں شریک معذوریوں کے حامل افراد کے لیے معقول سہولتیں فراہم کریں: جیسا کہ دوڑ میں شریک  کسی بہرے کھلاڑی کی خاطر مقابلے کے آغاز کے سگنل کے لیے پستول کی بجائے  بصری اشارے کا استعمال کرنا  یا کسی ایک بازو والے تیراک کو دونوں ہاتھوں سے چھونے کے ضابطے سے مستثناء قرار دینا ہے۔

اپنی نوجوانی میں میک فیڈن نے بہت سی کھیلوں میں حصہ لیا، جن میں وہیل چیئر باسکٹ بال، سلیج ہاکی، تیراکی، جمناسٹک، اور ٹریک اینڈ فیلڈ کے کھیل شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی ایتھلیٹک سرگرمیاں یونیورسٹی آف الینوائے میں بھی جاری رکھیں جہاں وہ “فائیٹنگ الینیز” نامی وہیل چیئر باسکٹ بال ٹیم اور وہیل چیئر ٹریک ٹیموں میں شامل رہیں۔

میک فیڈن نے اے ڈی اے کی 25ویں سالگرہ مناتے ہوئے گوگل وڈیو میں کہا، “اب یہ ایک وفاقی قانون بن چکا ہے۔ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ہر وہ کام اور ہر وہ چیز کریں جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ سب اے ڈی اے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔” میک فیڈن نے دنیا میں میراتھن  دوڑوں کے مقابلوں میں بوسٹن، لندن، شکاگو اور نیویارک سمیت 2013، 2014، 2015 اور 2016 میں مسلسل چار اہم میراتھن دوڑیں جیتیں۔

 

 

تماشائیوں کے کیا حقوق ہیں؟

معذوریوں کے حامل امریکیوں کا قانون ایسے رہنما اصول بھی فراہم کرتا ہے جن کے تحت کھلاڑیوں کی طرح تماشائی بھی یکساں طور پر کھیلوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مثلاً:

  • سٹیڈیم کی بالائی قطاروں کی بہترین نشستوں سمیت، نشستوں کی تمام درجہ بندیوں تک، وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کے لیے لازمی طور پر نشستوں کے درمیانی فاصلوں کو خصوصی طور پر ڈیزائن کیا جانا چاہیے اور اُن کے لیے یہ جگہیں مخصوص ہونا چاہیئیں۔ اونچا سننے والوں کی سہولت کے لیے، سُننے کے انتظامات کیے جانے چاہیئیں۔
  • وہیل چیئر والی نشستوں کو لازمی طور پر داخلی راستوں، غسل خانوں، لاکر روموں اور سٹیج کے عقبی علاقوں تک رسائی کے قابل ہونا چاہیے۔
  • خوانچہ فروشوں کے سٹالوں کو لازمی طور پر اتنی بلندی پر ہونا چاہیے کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والے یا دوسرے معذور افراد ان تک آسانی سے پہنچ سکیں۔

ان سب پابندیوں کا اطلاق  محلوں میں بنے ہوئے تیراکی کے تالابوں اور فٹ بال کے میدانوں پر بھی ہوتا ہے۔