
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے والے معذوریوں کے حامل طلبا یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ وہ کِن کِن امریکی یونیورسٹیوں میں جا سکتے ہیں اور کیسی کیسی کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
معذوریوں کے حامل طلبا کی کالج کے لیے تیاریوں کی ایک قومی ماہر، ایلزبیتھ ہیمبلٹ کہتی ہیں، “بین الاقوامی طلبا کو اُن سہولتوں کے بارے میں جاننا چاہیے جو اُنہیں اپنی امریکی یونیورسٹی میں دستیاب ہو تی ہیں۔” مثال کے طور پر، اُن کے لیے ممکن ہے کہ وہ لیکچر ریکارڈ کر سکیں یا امتحانوں کے لیے فالتو وقت لے سکیں۔
ایسے ادارے موجود ہیں جو کہ معذوریوں کے حامل افراد کے لیے کلی طور پر وقف ہیں۔ واشنگٹن کی گیلاڈٹ یونیورسٹی، دنیا کی واحد ایسی یونیورسٹی ہے جو بہروں اور کمزور سماعت کے طلبا کے لیے مخصوص ہے۔ اسی طرح ورماؤنٹ کا لینڈ مارک کالج ایسے بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا جنہیں تحریری مواد پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ مگر آج یہ کالج تعلیم حاصل کرنے کی معذوریوں کے حامل طلبا، توجہ کی کمی کے عارضے میں مبتلا طلبا اور آٹِزم کی بیماری کی مختلف شکلوں کے شکار طلبا کے لیے کالج کی سطح کی تعلیم کا اولین کالج بن چکا ہے۔
مگر موبِلٹی انٹرنیشنل کی مونیکا ملہوترا نہیں چاہتیں کہ طلبا اپنی تلاش کو محدود کریں۔ ملہوترا کہتی ہیں، “بہت سے طلبا اپنی معذوری کے بارے میں پہلے سوچتے ہیں۔ حقیقت میں اُنہیں یہ پہلو ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ امریکہ اس لیے آ رہے ہیں کہ اُنہیں تعلیمی پروگرام تک رسائی حاصل ہو — صرف اس پر توجہ دیں۔”
امریکہ کے تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں معذوریوں کے حامل طلبا کو سہولتوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ موبِلٹی انٹرنیشنل یو ایس اے دیگر ممالک سے آنے والے طلبا کے لیے اِن سہولتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی خاطرکام کر رہی ہے اور پورے ملک میں واقع کالجوں میں موجود معذور افراد کے لیے دستیاب سہولتوں کے سلسلے میں طلبا کا رابطہ، بین الاقوامی طلبا کے مشیروں سے کراتی ہے۔
ملہوترا کہتی ہیں، “ہمیں ابھی تک ایسے طلبا ٹیلی فون کرتے ہیں جو وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کون سے کالج میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اس کا جواب ہے کسی بھی کالج میں۔”

ہر کالج اور یونیورسٹی کے کیمپس میں معذوریوں کے حامل طلبا کی خدمات کے مخصوص دفاتر موجود ہوتے ہیں۔ یہ دفاتر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وِسکانسن جیسی بڑی سرکاری یونیورسٹیوں سے لے کر میسا چوسٹس کے ماؤنٹ ہولی اوک کالج جیسے فنون لطیفہ کے چھوٹے نجی کالجوں تک میں موجود ہیں۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ قطع نظر اس کے کہ طلبا کس کالج یا پروگرام کا انتخاب کرتے ہیں، اُنہیں معذوروں کی خدمات تک ہر جگہ رسائی میسر ہوتی ہے۔ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کو امریکی قانون اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے ہاں معذوریوں کے حامل طلبا کو داخلے دیں۔ ہیمبٹ کہتی ہیں، “ممکن ہے یہ کوئی بڑا دفتر نہ ہو مگر ہر کیمپس میں اس کام پر خاص طور سے کسی نہ کسی کو مامور کیا جاتا ہے۔”
جب کسی طالبعلم کو اپنے پروگرام میں داخلہ مل جائے تو اُسے معذوری کی سہولتوں کے دفتر میں اپنے آپ کو رجسٹر کروانا ہوتا ہے کیونکہ امریکہ میں آپ کا تعلیمی ادارہ آپ سے نہیں پوچھتا کہ آیا آپ کو ان سہولتوں کی ضرورت ہے یا نہیں۔ گو کہ بعض ایسے طلبا کے لیے یہ بات معمول کے خلاف ہو جو پوچھے بغیر ایسی سہولتیں فراہم کیے جانے کے عادی ہوں، مگر ملہوترا کے نزدیک طالبعلموں کے لیے اپنے امریکی تجربات سے سیکھنے کا یہ ایک موقع ہوتا ہے۔ ملہوترا کے مطابق، ” معذوریوں کے حامل افراد بذات خود اپنے بہترین وکیل ہوتے ہیں۔”
وہ کہتی ہیں، ” معذوریوں کے حامل ہر فرد کو بذات خود سب سے اچھی طرح یہ علم ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتا/چاہتی ہے اور اُس کی کیا ضرورت ہے۔”
یہ مضمون اس سے قبل 4 اکتوبر 2017 کو شائع ہو چکا ہے۔