معذوریوں کے حامل افراد کے حقوق کی خاطر میدان میں اور میدان سے باہر کامیابیوں کی داستان

جب اینجلی فوربر پریٹ کی عمر 5 سال تھی تو ان کے والدین انہیں بوسٹن میراتھن میں لے گئے جہاں اینجلی کو  وہیل چیئر پر تیزی سے بھاگتے لوگوں کو دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی۔

پیدائش کے کچھ عرصہ بعد سے کمر سے نیچے معذور ہو جانے والی فوربر پریٹ کہتی ہیں، “یہ منظر دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔ میں نے پہلے اس قدر عمدہ منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے میرے سامنے ایک نئی دنیا کے امکانات وا کر دیے۔”

اس سے کئی سال بعد فوربر پریٹ نے وہیل چیئر پر دوڑ لگانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا اور دو پیرالمپک کھیلوں میں امریکہ کی نمائندگی کی۔ اب وہ وینڈربلٹ یونیورسٹی میں پروفیسر، معذوروں کے حقوق کی حامی اور دوسروں کا حوصلہ بڑھانے اور ان میں تحریک پیدا کرنے والی مقرر ہیں۔

Woman with prosthetic leg jumping in a track event (© Atsushi Tomura/Getty Images)
برازیل کے شہر ریو میں ہونے والے اولمپکس میں، سکاؤٹ بیسیٹ لانگ جمپ کے مقابلوں میں دسویں جب کہ ایک سو میٹر کی دوڑ میں پانچویں نمبر پر آئیں۔ (© Atsushi Tomura/Getty Images)

انہوں نے اور ایک دوسری پیرالمپک کھلاڑی، سکاؤٹ بیسیٹ نے حال ہی میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ مسابقتی کھیل معذوروں کی زندگیوں کو کیسے تبدیل کر سکتے ہیں۔

10 ممالک میں امریکی سفارت خانوں کی معاونت سے “امیریکن سپیسز” کے نام سے بنائی گئی جگہوں میں حاضرین نے ان کی بات سنی اور ان سے اس بابت سوالات کیے کہ وہ کھیلوں سے متعلق اپنے خوابوں کو کیسے عملی شکل دے سکتے ہیں۔ دیگر لوگوں نے ویب پر براہ راست ان کی باتیں سنیں۔

امریکہ معذوروں کے حقوق کے حوالے سے مثالی حیثیت رکھتا ہے جہاں ایسے قوانین موجود ہیں جو انہیں سرکاری تعلیم، عمارتوں اور نقل و حمل کے ذرائع تک رسائی کی ضمانت دیتے ہیں۔ امریکہ پیرالمپک تحریک میں بھی قائدانہ کردار ادا کرتا ہے۔

تاہم عالمی سطح کا کھلاڑی بننے میں ہنوز بے شمار مسائل درپیش ہیں جیسا کہ فوربر پریٹ اور بیسیٹ نے تصدیق کی۔ وہ اور بیسیٹ دونوں امریکہ سے باہر دوسسرے ممالک میں پیدا ہوئیں اور انہیں امریکی خاندانوں نے گود لیا۔

27 سالہ بیسیٹ اس وقت چھوٹی سی بچی تھیں جب چینی شہر نینجنگ میں  کیمیائی  مادے میں آگ لگنے پر ایک ٹانگ سے محرومی کے بعد انہیں سڑکوں پر لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ وہ سات برس کی عمر تک ایک یتیم خانے میں رہیں جب مشی گن سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان نے انہیں بچایا۔ بیسیٹ نے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ فٹ بال کھیلا مگر انہیں مقابلوں میں شرکت کی اجازت نہ  ملی۔ وہ کہتی ہیں، “مجھے اکثر کہا جاتا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں ہے۔ اس صورتحال پر قابو پانا ذہنی طور پر ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔” جب انہیں 14 سال کی عمر میں پہلی مرتبہ دوڑنے کے لیے مصنوعی ٹانگ ملی تو صورتحال تبدیل ہو گئی۔

فوربر پریٹ بھارت کے شہر کولکتہ میں پیدا ہوئیں اور چھوٹی عمر میں ہی انہیں میساچوسیٹس کے ایک خاندان نے گود لے لیا۔ وہ اپنی پیدائش کے دو ماہ بعد اس بیماری کا شکار ہوئیں جس نے انہیں معذور کر دیا۔

معذور لوگوں کے لیے قانونی تحفظ کے باوجود فوربر پریٹ کو 14 سال کی عمر میں مساوی سہولیات اور کھیلوں کے مواقع حاصل کرنے کے لیے اپنے علاقے کے سرکاری سکول کے حکام پر مقدمہ کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں، “مجھے اس مقدمے کے لیے خود وکیل کرنا پڑا۔” بالاآخر وہ جیت گئیں۔

فوربر پریٹ کہتی ہیں، “اس سے مجھے اپنے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور مزید آگے بڑھنے نیز تعلیم اور کھیل کے میدان میں شاندار کارکردگی دکھانے کے لیے میرا اعتماد پکا ہو گیا۔”

انہوں نے اوربانا شمپین میں یونیورسٹی آف ایلانائے میں داخلہ لیا جہاں انہیں وہیل چیئر دوڑ کے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ مشق کرنے کا موقع میسر آیا۔ پھر وہ خود ایسی ہی کھلاڑی بن گئیں اور انہوں نے 200 میٹر دوڑ میں عالمی ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ 2008 میں بیجنگ میں ہونے والے  پیرالمپک کھیلوں میں کانسی کے دو تمغے بھی حاصل کیے۔

2012 میں لندن میں ہونے والے پیرالمپک کھیلوں کے بعد وہ کھیل سے ریٹائر ہو گئیں۔ اب وہ معذوری سے متعلق مسائل پر تحقیق کے ساتھ قائدانہ صلاحیتوں کی ترقی میں کھیلوں کے کردار کا جائزہ لیتی ہیں اور ایسے ممالک میں معذوروں کے لیے مساوی حقوق کے حصول میں مدد دیتی ہیں جہاں ان لوگوں کی راہ میں تاحال نمایاں رکاوٹیں موجود ہیں۔

بیسیٹ کو ٹرائی ایتھلن میں نام پیدا کرنے کے بعد یوسی ایل اے [لاس اینجلیس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا] میں سال اول کی طالبہ کے طور پر دوڑ کے لیے چنا گیا۔ وہ لندن پیرالمپکس میں سونے کا تمغہ نہ جیت پائیں۔ اب وہ 2020 میں ٹوکیو میں ہونے والے پیرالمپک کھیلوں کے لیے کڑی محنت کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے، “جسمانی مسائل ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ طاقت ور اور مضبوط نہیں ہیں۔”