
بعض مبہوت کر دینے والی فلموں کی عکس بندی دنیا کے اُن مقامات پر ہوئی جو ثقافتی اہمیت کے حامل ہیں اور انسانی صناعی اور قدرتی خوبصورتی کے گواہ ہیں۔ اِس زمرے میں شامل بہت سی فلموں کا تعلق ہالی وڈ سے بھی ہے۔ چاہے یہ آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کردہ فلمیں ہوں یا دیگر مقبول ترین فلمیں ہوں، یہ سب “خوبصورت پسہائے منظر” دکھانے سے زیادہ ناظرین کے تہذیبوں کے فہم میں وسعت پیدا کرتی ہیں۔

1987 میں، عوامی جمہوریہ چین نے فلم سازوں کو بیجنگ کے شہرِ ممنوعہ میں ‘ دا لاسٹ ایمپرر‘ نامی فلم کی شوٹنگ کرنے کی اجازت دی۔ اس فلم نے بہترین تصویر سمیت نو آسکر ایوارڈز جیتے۔ یہ شاہی محل 1406 اور 1420 کے درمیان تعمیر کیا گیا تھا اور 500 سال سے زائد عرصے تک 24 شہنشاہوں کے اقتدار کا مرکز رہا۔

فلم “فرام رشیا ود لو” استنبول کے تاریخی علاقے میں واقع چھٹی صدی کی آیا صوفیہ مسجد کے قریب فلمائی گئی۔ 1963 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی اس فلم میں جیمز بانڈ اپنی محبوبہ سے اس جگہ ملتے ہیں اور پھر یہ جوڑا جاسوسی کے مشنوں پر شہر کے ہنگامہ خیز چکروں پر نکل جاتا ہے۔

فلم “دی ساؤنڈ آف میوزک” آسٹریا کے شہر سالزبرگ کے تاریخی مرکز میں اور اس کے آس پاس کے علاقے میں فلمائی گئی تھی۔ اس غنائیہ فلم کے کردار ماریا اور وون ٹریپ اور دیگر بچے شہر کے وسطی چوراہے میں گاتے ہیں اور گھومتے پھرتے ہیں، اس کے فوارے کے گرد کھیلتے ہیں اور قریبی پلوں کے آر پار آتے جاتے ہیں۔ اس فلم نے 1965 میں بہترین تصویر کے زمرے اور چار دیگر زمروں میں آسکر ایوارڈ حاصل کیے۔

نیو یارک کا مجسمہ آزادی دوستی اور آزادی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آزادی کا یہ مجسمہ فرانس نے 1886 میں امریکہ کو دیا تھا۔ 1949 میں بننے والی غنائیہ فلم ‘ آن دی ٹاؤن’ بحریہ کے اُن تین ملاحوں کے بارے میں ہے جو ایک رات کی چھٹی پر نیویارک آتے ہیں۔ اس فلم میں جین کیلی اور فرینک سناٹرا نے بھی اداکاری کی اور اسے بہت سے مشہور مقامات پر فلمایا گیا جس میں مجسمہ آزادی بھی شامل ہے۔

تاج محل مغل شہنشاہ شاہجہان نے اپنی بیوی کی یاد میں بنوایا تھا اور یہ 1648 میں مکمل ہوا۔ اس کا شمار دنیا کی عظیم ترین تعمیراتی اور فنی کامیابیوں میں ہوتا ہے۔ 2008 میں بننے والی اور آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم “سلم ڈاگ ملین ائر” میں مرکزی کردار ممبئی کے مسلم علاقے کے یتیم، جمال نے ادا کیا۔ اس فلم میں جمال اپنا پیٹ پالنے کے لیے تاج محل کے ایک نقلی ٹور گائیڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔

فرانس میں ورسائی کا محل لوئی چہار دہم سے لے کر لوئی شش دہم تک تین بادشاہوں کی رہائش گاہ رہا۔ اس میں اِن بادشاہوں کو یورپ کی شاہی رہائش گاہوں کے حساب سے عیش و عشرت کی چوٹی کی سہولتیں حاصل تھیں۔ 2005 میں صوفیہ کوپولا کی فلم “میری انٹونیٹ” کو اس محل کے مختلف مقامات پر اور اس کے باغات میں فلمایا گیا۔ کوپولا کے عملے کو ہفتے میں صرف ایک دن فلم بندی کرنے کی اجازت تھی کیونکہ بقیہ دنوں میں یہ محل میوزیم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔