موسمایتی بحران صفنی انصاف اور مساوات کو کیسے متاثر کر رہا ہے

جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ شدید سے شدید تر ہوتے ہوئے موسمیاتی بحران سے مردوں اور لڑکوں کی مقابلے میں عورتیں اور لڑکیاں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق موسمیاتی بحران سے بے گھر ہونے والوں کی مجموعی تعداد کا اسی فیصد عورتیں ہوتی ہیں۔   تنازعات اور کسی قدرتی آفت کے بعد یا پانی کی قلت اور خراب فصلوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی جیسے پیدا ہونے والے بحرانوں کے دوران عورتوں اور لڑکیوں کو صنفی بنیادوں پر تشدد کا سامنا کرنے کے بہت زیادہ خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں نقل مکانی کے راستوں پر اور پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بھی اسی قسم کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کی ایک مثال 2014 میں سولومن جزائر میں آنے والا سیلاب ہے جس میں ہلاک ہونے والوں میں تقریباً 90 فیصد عورتیں اور بچے تھے۔  یونیسیف کے مطابق عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کی اس بلند شرح (پی ڈی ایف، 10 ایم بی) کی وجہ ثقافتی رواج تھے جن کے مطابق عورتوں کو بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے گھروں میں رہنا پڑتا ہے۔ جب اچانک سیلاب آیا تو مرد باہر کھلی جگہوں پر کام کر رہے تھے اور محفوظ رہے جبکہ عورتیں گھروں پر ہونے کی وجہ سے اپنی جانیں بچانے کے لیے کسی بلند مقام پر نہ جا سکیں۔

امریکہ کے صحت کے قومی ادارے کے مطابق خشک سالی کے شکار ملک شام میں مردوں کی سربراہی میں چلنے والے گھرانوں کے مقابلے میں عورتوں کی سربراہی میں چلنے والے گھرانوں کو 24 گھنٹے پانی تک رسائی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں۔ جب شامی عورتیں تنازعات یا پانی تک رسائی کی کمی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتی ہیں تو اُن کو ایسی صورت حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جن میں انہیں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اردن میں 29% شامی پناہ گزین عورتیں کسی نہ کسی قسم کے جسمانی حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے ساتھ ساتھ عورتیں اور لڑکیاں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی رہنما اور نقیب بھی ہیں۔ اُن ممالک میں ماحول اور زمین کی حفاظت کی بلند شرحیں دیکھنے میں آئی ہیں جن کی حکومتی قیادت  میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔

محکمہ خارجہ میں سمندروں اور بین الاقوامی ماحولیاتی اور سائنسی امور کی اسسٹنٹ سیکرٹری، مونیکا میڈینا نے 15 نومبر کو کاپ 27 کے ایک مذاکرے میں کہا کہ ” ہم جانتے ہیں کہ آب و ہوا کے بحران سے نمٹنا اور صنفی مساوات حاصل کرنا ایک دوسرے سے باہم جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس وقت ہمارے پاس ایک حیرت انگیز موقع موجود ہے۔”

امریکی حکومت کا ردعمل

آب و ہوا کا زیادہ منصفانہ مستقبل تعمیر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عورتوں، لڑکیوں اور پسماندہ طبقات کو موسمیاتی اثرات کو کم کرنے اور اپنے آپ کو نئے موسمیاتی حالات کے مطابق ڈھالنے کی حکمت عملیوں میں شامل کیا جائے۔

قابل تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے مطابق عورتیں تیل اور گیس کی عالمی صنعت کا محض 22%  اور قابل تجدید توانائی کے شعبے کا 32% حصہ ہیں۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے زراعت اور سیاحت جیسے مختلف شعبوں میں عورتوں کی نمائندگی زیادہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ، امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ (یو ایس ایڈ) اور دیگر امریکی ادارے عورتوں کو قابل تجدید توانائی اور دیگر شعبوں میں با اختیار بنانے کی خاطر پروگراموں کے لیے فنڈ فراہم کر رہے ہیں تاکہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں شامل ہونے میں اِن کی ہمت افزائی کی جا سکے۔

امریکہ نے شرم الشیخ، مصر میں کاپ 27 میں اعلان کیا کہ یو ایس ایڈ صنفی انصاف اور مساوات کے ‘جینڈر ایکوئٹی اینڈ ایکویلٹی ایکشن فنڈ’ سے 21.8 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم عورتوں کی بابت اٹھائے جانے والے موسمیاتی اقدامات کے لیے دے رہا ہے۔ یہ رقم اس فنڈ کے کاپ 26 کے 14 ملین ڈالر کی رقم سے زیادہ ہے۔

مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعے یو ایس ایڈ عورتوں کی سربراہی میں اٹھائے جانے والے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات میں مدد کر رہا ہے:-

  • ایمازون کی شراکت داری سے صنفی انصاف کے لیے ‘کلائمیٹ جینڈر ایکویٹی فنڈ’ کے نام سے ایک نیا فنڈ قائم کیا گیا ہے۔ اس میں 6 ملین ڈالر کا ایک ابتدائی وعدہ شامل ہے۔ اس فنڈ کے تحت عورتوں کی قیادت میں چلنے والی ایسی موسمیاتی تنظیموں اور کاروباروں کے لیے سرمایہ کاریوں کا بندوبست کیا جائے گا جو سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں موسمیاتی مسائل کے حل میں صنفی انصاف کو فروغ دیں گے۔
  • ماحولیات میں صنف کو فروغ دینے والی ‘ایڈوانسنگ جینڈر ان دی انوائرنمنٹ’ (اے جی ای این ٹی یا ایجنٹ) نامی شراکت کے تحت ‘ فطرت کو بچانے کی بین الاقوامی یونین’ کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے۔ اس شراکت داری کے ذریعے آب و ہوا کے شعبوں میں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد سے نمٹنے کا کام کرنے والی تنظیموں کی مالی مدد کی جاتی ہے۔
  • خواتین اور نوجوانوں کے تعلیم حاصل کرنے اور ہنر سیکھنے پر سرمایہ کاری کی جار رہی ہے۔ یو ایس ایڈ نے ‘مصری پہل کاروں کے ایک نو سالہ پروگرام’ میں 23 ملین ڈالر کی ابتدائی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ ایک جامع اور باصلاحیت مصری افرادی قوت تیار کی جا سکے۔ اس کاوش میں اُن شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جو آب و ہوا اور توانائی جیسے ماحولیاتی اہداف حاصل کرنے میں آسانیاں پیدا کر سکیں۔

محکمہ خارجہ کا عورتوں کے بین الاقوامی مسائل کا دفتر بھی صاف توانائی کے شعبے میں عالمی افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ کرنے کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دفتر موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل تلاش کرنے میں قیادت کرنے اور مقامی اور عالمی سطح پر موسمیات سے متعلق پالیسیوں کا پرچار کرنے کے لیے لڑکیوں کا ایک عالمی نیٹ ورک بھی تیار کرے گا۔

اس کے علاوہ محکمہ خارجہ کے دیگر بیوروز توانائی کے شعبے میں عورتوں کی شمولیت کی پالیسی کو فروغ دے رہے ہیں، عورتوں کے زیر قیادت چلنے والی تنظیموں کو موسمیات سے متعلقہ سیاسی مباحثوں میں با اختیار بنا رہے ہیں اور خواتین کو موسمیاتی تبدیلی کے قومی عمل کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ یہ اقدامات عورتوں اور لڑکیوں کو موسمیاتی بحران سے نمٹنے اور دنیا کو صفر اخراجوں کے مستقبل کی راہ پر ڈالنے کے لیے بااختیار بنائیں گے۔

میڈینا نے پوچھا کہ “ہم یہ بات چیت کیوں کر رہے ہیں اور یہ وعدے کیوں کر رہے ہیں؟ اس لیے کہ شواہد بتاتے ہیں کہ موسمیاتی بحران کے خلاف جنگ میں عورتوں اور لڑکیوں کو اُن کے تمامتر تنوع کے ساتھ با اختیار بنانے کو ترجیح دینے سے ہماری کوششیں سب کے حق میں کامیاب ہوں گیں۔ لہذا ہم صلاحیتوں کے اس بہت بڑے ذخیرے سے فائدہ اٹھانا جاری رکھیں گے۔”