امریکی محکمہ خارجہ نے امریکہ میں قائم دو کمپنیوں کو موسمیاتی بحران پر کام کرنے پر ” کارپوریٹ ایکسیلنس یا اے سی ای” ایوارڈ دیئے ہیں۔ یہ ایوارڈ کمپنیوں کو کسی خاص شعبے میں شاندار کارکردگی پر دیئے جاتے ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا، “آب و ہوا کا بحران ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے ہم اکیلے حکومت یا سول سوسائٹی کی کاروائیوں سے حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں کمپنیوں کی ضرورت ہے جو ایسی سرمایہ کاریاں کریں جن کے ذریعے ہم خالص صفر اخراج کا [ہدف] حاصل کرسکیں تاکہ ہم عالمگیر حدت کو 1.5 ڈگری تک محدود کر سکیں اور موسمیاتی تباہی کو روک سکیں۔”
اے سی ای کے ذریعے 1999 سے امریکی کمپنیوں کے بیرون ملک ذمہ دارانہ کاروباری طرز عمل کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اے سی ای نے 2021 میں اقتصادی شمولیت، صحت کی حفاظت اور موسمیاتی اختراع کے زمروں میں کمپنیوں کو ایوارڈ دیئے ہیں۔
آب و ہوا کے اختراع کاروں “آسٹرالس ایکوا کلچر” اور “پیٹاگونیا” نے پائیدار موافقت کو فروغ دینے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پر ایوارڈ حاصل کیے۔
صحت مند کرہ ارض کے لیے خوراک حاصل کرنے کے پائیدار ذرائع
امریکی ریاست میسا چوسٹس کی آسٹرالس ایکوا کلچر نامی کمپنی نے ویت نام کے وسطی حصے کے استوائی سمندری علاقے میں ماحول دوست سمندری فارمنگ کی بنیاد رکھی ہے۔

اس کے اختراعی کام نے بارامونڈی کو خوراک کا ایک سستا اور ماحول دوست ذریعہ بنا دیا ہے۔ بارامونڈی غذائیت سے بھرپور ایک سفید مچھلی ہے۔
بارامونڈی خاص طور پر ماہی پروری کے حوالے سے مچھلیوں کی ایک پائیدار نسل ہے کیونکہ یہ پودوں سے حاصل کی جانے والی اپنی خوراک کو اومیگا 3 فیٹی ایسڈز میں تبدیل کر سکتی ہے جو کہ انسانی دماغ کی صحت مندی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ سالمن مچھلی کو بھی اومیگا 3 کا ایک اچھا ذریعہ کہا جاتا ہے۔ مگر اس میں مشکل یہ ہے کہ سالمن کے لیےغذائیت پیدا کرنے کی خاطر دوسری مچھلیوں کو کھانا ضروری ہوتا ہے۔
اس طرح بارامونڈی پودوں سے اپنی خوراک حاصل کرکے غذائیت تیار کرتی ہے۔ آسٹرالس کمپنی پانی کو ری سائیکل کرکے بارامونڈی مچھلی کی پرورش کرتی ہے اور مچھلی کی فارمنگ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کو مزید کم کرتی ہے۔
آسٹرالس کا اختراعی نقطہ نظر بڑے پیمانے پر سمندری آبی زراعت کے لیے ایک ایسے نئے ماڈل کی نمائندگی کرتا ہے جو کارکنوں اور ساحلی کمیونٹیوں کے لیے معاشی فوائد پیدا کرتا ہے، عالمی غذائی تحفظ کو بڑھاتا ہے، جنگلی ماہی پروری کی حفاظت کرتا ہے، اور موسمیاتی لچک پیدا کرتا ہے۔

آسٹرالس کا گرینر گریزنگ نامی منصوبہ بھی ماحولیاتی بحران سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے تحت ایسپراگوپسس نامی سمندری گھاس کو مویشیوں کے چارے میں ملا کر میتھین گیس کے اخراجوں سے نمٹا جا رہا ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے، “اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے دنیا کے دو ارب مویشیوں کے آب و ہوا پر پڑنے والے اثرات کو ڈرامائی طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ [یہ تبدیلی] کرہ ارض پر موجود تمام کاروں کو سڑک سے ہٹانے کے برابر ہوگی۔”
ماحولیاتی معیارات پر پورا اترنے والی ملبوسات سازی
کیلی فورنیا میں قائم تفریحی لباس تیار کرنے والی کمپنی، پیٹاگونیا کے کاروباری ماڈل میں ماحولیات سے جڑے مسائل کے حلوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کمپنی نے 2025 تک رسدی سلسلوں سمیت، اپنے سارے کاروبار کو کاربن سے پاک بنانے کا وعدہ کیا ہے۔

پیٹاگونیا اپنا یہ ہدف حاصل کر رہی ہے۔ کمپنی امریکہ میں 2019 سے 100% اور عالمی سطح پر 80% قابل تجدید بجلی استعمال کر رہی ہے۔ 2020 کے موسم خزاں سے یہ کمپنی مختلف موسموں میں استعمال کیے جانے والے 68% کپڑے ری سائیکل کیے گئے مواد سے بنا رہی ہے۔
پیٹاگونیا نے اپنے آپ کو مکمل طور پر کاربن سے پاک کمپنی بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اس کے لیے پیٹاگونیا اپنی فیکٹریوں اور اپنے ہاں استعمال کے لیے کھیتوں میں اگائے جانے والے قدرتی ریشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے کاربن کے تمام اخراجوں کو ختم کرنے، انہیں محفوظ طور پر ذخیرہ کرنے یا دوسری صورت میں کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
کمپنی تمام خوردہ سٹوروں، ڈسٹری بیوشن سینٹروں اور عالمی دفاتر کے لیے صرف قابل تجدید ذرائع سے حاصل کردہ بجلی استعمال کرے گی۔
پیٹاگونیا اپنے رسدی سلسلے میں توانائی کے استعمال کو بھی کم کرے گی، قابل تجدید توانائی پر منتقلی کے لیے فراہم کنندگان کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور اس کے بعد بچ جانے والے اپنے کاربن کے اخراجوں کو کم کرنے پر کام کرے گی۔
اور یہ اپنے ہاں ملبوسات کی تیاری میں استعمال ہونے والے ریشوں کے لیے خودکار نامیاتی زراعت کو فروغ دے گی تا کہ زمین کی اوپر کی سطح کی مٹی کو بحال اور فضا کو کاربن سے پاک کیا جا سکے۔