موسمیاتی تبدیلی خوراک کے بحران کو کس طرح متاثر کرتی ہے

 فوجیوں، کووڈ-19 اور خشک زمین کا متحرک تصویری خاکہ (تصویری خاکہ: State Dept./M. Gregor تصاویر: © zef art/Shutterstock.com, © joshimerbin/Shutterstock.com, © Ivan Soto Cobos/Shutterstock.com)
(State Dept./M. Gregory)

دنیا کے بہت سے حصوں میں خوراک ایک ضروری مگر قلیل وسیلہ ہے۔ عالمی تصادموں، موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 کی وجہ سے پیدا ہونے والے ترسیلی تعطلوں کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔ اِس مضمون میں موجودہ غذائی بحران پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔   .

شدید موسم عالمی بھوک کا ایک محرک ہے۔

چونکہ عالمی درجہ حرارت اور سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اس لیے گرمی کی اٹھنے والی لہروں، خشک سالیوں، سیلابوں، سمندری طوفانوں اور جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگوں میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ یہ حالات کسانوں کے لیے اناج اگانے اور بھوک کے شکار لوگوں تک خوراک پہنچانے کو مشکل بنا رہے ہیں۔

سائنسی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ زمین پر انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی واقعات زیادہ تواتر کے ساتھ اور  زیادہ شدید ہوتے جائیں گے۔

اقوام متحدہ میں امریک کی مندوب، لنڈا تھامس گرین-فیلڈ نے اگست میں کہا کہ موسمیاتی بحران قدرتی آفات، سیلاب، طوفان اور گرمی کی لہروں کا بحران ہے اور یہ براہ راست غذائی سلامتی کے بحران کا سبب بنتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کو کھانا کھلانا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ شدید موسمی واقعات اور تصادم عالمی سطح پر جبری نقل مکانی کے سب سے بڑے دو ایسے محرک ہیں جو مل کر ہر سال تقریباً 30 ملین افراد (پی ڈی ایف، 611 کے بی) کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔

 مردہ گائے کے پاس سے جلانے کے لیے لکڑیاں لے کر گزرتی ہوئی عورتیں (© Simon Maina/AFP/Getty Images)
ترکانہ خواتین جولائی میں شمالی کینیا میں ایک مردہ گائے کے پاس سے لکڑیاں لے کر گزر رہی ہیں۔ (© Simon Maina/AFP/Getty Images)

زمین پر انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیاں قدرتی طور پر بدلنے والے موسموں پر پڑنے والے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ جس کی ایک مثال بحرالکاہل میں “لانینا” نامی سمندری عمل ہے۔ امریکہ کا  سمنرری اور فضائی امور سے متعلق قومی ادارہ اس نقطے کی وضاحت یوں کرتا ہے کہ لانینا کے دوران بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں تبدیلی انڈونیشیا سے لے کر جنوبی امریکہ کے مغربی ساحل تک استوائی بارشوں کے نمونوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا کہنا ہے کہ 2020 کے اواخر سے لا نینا کی وجہ سے بار بار پیدا ہونے والے حالات، بالخصوص مشرقی اور مغربی افریقہ، وسطی ایشیا، اور وسطی امریکہ اور کیریبین میں فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات ( پی ڈی ایف، 611 کے بی) کا سبب بن رہے ہیں۔

  سب سے زیادہ نقصان کا شکار افریقہ

افریقہ میں شدید موسمی حالات کے زیادہ تواتر اور شدت سے رونما ہونے کے خطرات کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

ذیل میں دیئے گئے موسمی حالات افریقہ کے خوراک کے بحران کو سنگین بنا رہے ہیں:-

  • دنیا کے مقابلے میں افریقہ میں درجہ حرارتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
  • افریقہ کے بارانی علاقوں میں بارشوں میں 30 فیصد اضافہ جبکہ خشک علاقوں میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے۔
  • افریقہ کے 95 فیصد کسانوں کا انحصار بارشوں پر ہے جبکہ اُن کے ہاں آبپاشی کا کوئی انتظام نہیں۔

1999 سے پہلے افریقہ میں ہر پانچ یا چھ سال بعد کم بارشوں والا موسم آیا کرتا تھا۔ مویشیوں کے بین الاقوامی تحقیقاتی  انسٹی ٹیوٹ کے مطابق آج کے کسان کو ہر دو یا تین سال بعد بارشوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پورے افریقہ میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں 34 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ شرح دنیا کے تمام خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔

قرن افریقہ کا خطہ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ میں بارشوں کی کمی کم از کم گزشتہ 70 برسوں میں رونما ہونے والی بدترین کمی ہے۔ برسات کے مسلسل چار موسموں میں بارش نہیں ہوئی اور اگلے موسم میں بھی بارش ہونے کی امید نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ صومالیہ کی تقریباً نصف آبادی خوراک سے محروم  ہے۔ ماہرین نے متنبہ  کیا ہے کہ مزید انسانی امداد کے بغیر اس سال کئی اضلاع میں قحط پیدا ہوسکتا ہے۔

ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ افریقہ کے دوسرے علاقوں کی بات کی جائے تو مڈغاسکر کے گرینڈ سوڈ کے خطے میں  واقع ملک کے انتہائی جنوبی صوبوں میں 1981 کے بعد سے بدترین خشک سالی دیکھنے میں آئی ہے اور مسلسل تین سال سے فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے افریقہ کے سمندری اور میٹھے پانیوں میں کی جانے والی ماہی گیری بھی خطرات سے دوچار ہے۔ افریقہ میں لاکھوں افراد اپنی خوراک کے لیے ماہی گیری پر انحصار کرتے ہیں۔

بے مثل سیلاب اور امریکی امداد

بارشوں کی کمی یا زیادتی اور شدید گرمی مویشیوں کو ہلاک اور فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں دی جا رہی ہیں:-

  • اگست کے آخر میں پاکستان میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب آئے جن سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے۔
  • جنوبی سوڈان کو مسلسل چوتھے سال سیلابوں کا سامنا ہے۔
  • 2021 میں نائجیریا میں برسات کا موسم تاخیر سے شروع ہوا جس کی وجہ سے نائجیریا کی فصلیں 65 فیصد کم ہوئیں۔ آخر میں جب بارشیں برسیں تو جو کچھ بچا تھا وہ سب بہا کر لے گئیں۔
  • ڈبلیو ایف پی نے بتایا ہے کہ لاطینی امریکہ میں گوئٹے مالا اور ہونڈوراس کے بعض حصوں میں اوسط بارشوں کے مقابلے میں زیادہ بارشیں متوقع ہیں جس کی وجہ سے نشیبی علاقوں میں سیلاب کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
 سیلابی پانی کے بیچ سے گزرتی ہوئی ایک عورت (© Adrienne Surprenant/AP Images)
جنوبی سوڈان کی شمالی بحر الغزل صوبے میں اکتوبر 2021 میں ایک عورت اجاڑ گھروں کے درمیان چل رہی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے تقریباً 100 خاندان اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ (© Adrienne Surprenant/AP Images)

فروری کے بعد سے انسانی بنیادوں پر امریکی حکومت خوراک کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی انسانی امداد اور 2.9 ارب ڈالر کی ترقیاتی امداد کا وعدہ کر چکی ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 20 ستمبر کو موسمیاتی تبدیلیوں اور انتہا کے موسموں کے جھٹکے برداشت کرنے کی سکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ “پائیدار زرعی پیداوار” کے ہدف کے لیے پانچ سالوں میں دنیا بھر میں 11 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے لیے کانگریس کے ساتھ کام کرے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ “ہمارے لوگوں کی فلاح و بہبود کا انحصار خوراک کی سلامتی پر ہے جسے ہم سب مل کر فراہم کرتے ہیں۔”

یہ مضمون اس سے قبل 17 اکتوبر کو شائع ہو چکا ہے