پوری دنیا میں خواتین اور لڑکیاں موسمیاتی مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے اپنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم یا سٹیم) کی مہارتوں کو بروئے کار لا رہی ہیں۔
امریکہ اور دنیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والیں موسمیاتی اختراع کار خواتین اور لڑکیوں کا نیٹ ورک بنانے کے محکمہ خارجہ کے انوویشن سٹیشن انشی ایٹو نامی پروگرام کے تحت مندرجہ ذیل چار خواتین کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:-

انیکا پوری بچپن میں جب اپنے خاندان سے ملنے بھارت گئیں تو وہ بمبئی کے بازاروں میں نقش و نگار والے ہاتھی دانتوں کی خرید و فروخت دیکھ کر پریشان ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں پوری کو افریقہ اور بھارت میں ہاتھیوں کے غیرقانونی طور پر شکار کرنے والوں کا سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے میں حکام کی مدد کرنے کے لیے کوئی ترکیب نکالنے کی ترغیب ملی۔ شکاریوں کی نگرانی کے لیے استعمال ہونے والے ڈرونز سے انسانوں اور جانوروں میں تمیز کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ پوری نے ایلسا یعنی (ہاتھی بچانے والوں کا مخفف) کے نام سے ایک ایپ تیار کیا ہے جس میں انسانوں اور جانوروں میں فرق کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس ایپ سے جنگلی حیات کے پارکوں میں شکاریوں کا سراغ لگانے میں کامیابی کی شرح 90% ہے۔ انیکا پوری کو امید ہے کہ دنیا بھر میں شکاریوں کا آسانی سے پتہ لگانے کے لیے ایلسا کو استعمال کیا جائے گا جس کے نتیجے میں خطرات سے دوچار ہاتھیوں کی آبادی کی حفاظت کی جا سکے گی۔ پوری نے کہا کہ “ایلسا کا بنیادی مقصد اِس طریقہ کار اور اِس ماڈل کو اُن نظاموں کے ساتھ ملا کر نافذ کرنا ہے جن پر پہلے ہی سے پارکوں میں عمل کیا جا رہا ہے۔”

ایرن ایش بحر الکاہل کے شمال مغرب میں بڑی ہوئیں۔ انہیں بچپن میں اپنی خالہ کے ساتھ سان خوآن جزیرے کے ساحل پر اورکاس نسل کی وہیل مچھلیوں کو دیکھنا آج بھی یاد ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ “درحقیقت وہ لمحات میرے ذہن پر نقش ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ہیں اور وہیل مچھلیاں ہیں۔ مجھے احساس ہونے لگا کہ اِن قاتل وہیل مچھلیوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اور ان کی آبادیاں مشکل میں ہیں۔” سکاٹ لینڈ کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی سے سمندری حیاتیات میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد ایش نے اُس سطح کے سمندری تحفظ کا کام کرنے کا فیصلہ کیا جو اُن کی ڈگری کے تقاضوں کہیں زیادہ بڑھ کر تھا۔ انہوں نے اور اب اُن کے شوہر، راب ولیمز نے سمندری ممالیہ جانوروں کی آبادی اور بحر الکاہل میں بڑھتے ہوئے مسائل کے بارے میں ڈیٹا جمع کرنے کے لیے “اوشن انشی ایٹو” نامی تنظیم کی مل کر بنیاد رکھی۔ اُن کی جمع کردہ معلومات سے پالیسی سازوں کو سمندری زندگی پر موسمیاتی تبدیلی، شور کی آلودگی اور پلاسٹک کی آلودگی کی وجہ سے مرتب ہونے والے اثرات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ “ہم نے ہمیشہ سائنس میں خواتین کی سرپرستی کرنے کو خصوصی ترجیح دی ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ تحفظ کے اُن مسائل کی تعداد اچھی خاصی ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ اسی طرح ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بھی ضرورت ہے۔”
فاطمہ الزیلزیلا کو وہ لمحہ یاد ہے جب انہوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ان کے ملک کویت میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے والی جگہیں تیزی سے بھرتی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ “مجھے یہ تو علم تھا کہ میں کچھ نہ کچھ کروں گی۔ مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ میں کس قسم کا قدم اٹھانا چاہتی ہوں۔ الزیلزیلا اور اُن کی بہن نے اپنی جمع شدہ پونجی کو “ایکو سٹار” کے نام سے ایک غیرسرکاری تنظیم بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جس نے بعد میں یہ ثابت کیا کہ ایک ملک گیر ری سائکلنگ نظام کھڑا کرنا ممکن ہے۔ الزیلزیلا نے اپنی مدد کے لیے رضاکار بھرتی کیے جن میں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں تھیں اور جلد ہی وہ سینکڑوں میٹرک ٹن کچرہ ری سائیکل کرنے لگیں۔ انہیں امید ہے کہ اس کام کو مستقبل میں پھیلایا جائے گا اور ملک میں ری سائکلنگ کا مستقل ڈہانچے کو عملی شکل دینے میں انہیں حکومتی تعاون حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ “کویتی خواتین بہت مضبوط ہیں۔ ہم با اختیار ہیں۔”

شمالی کینیا کے سفر کے دوران پیٹریشیا کومبو نے نوٹ کیا کہ آب و ہوا خشک ہے اور دیکھا کہ مقامی بچوں کو ہریالی یا پانی تک بہت ہی کم رسائی حاصل ہے۔ جب 2019 میں وہ ایمبونی میں اپنے گھر واپس لوٹیں تو انہوں نے ‘پیٹ ٹری’ کے نام سے اپنی تنظیم کی بنیاد رکھی تاکہ مقامی سکولوں کو ان کی میونسپلٹیوں میں درخت لگانے میں شامل کیا جا سکے۔ اب تک 15,000 درخت لگانے کے لیے وہ 15 سکولوں کے ساتھ مل کر کام کر چکی ہیں۔ کورونا کی عالمی وباء کے دوران انہوں نے سکول کے بچوں کو آم اور ایواکاڈو کے بیجوں سے نئے پودے اگانے کے بارے میں تعلیم دینے کا کام شروع کر دیا۔ کومبو کہتی ہیں کہ “ہمیں احساس ہوا کہ کھانے اور [خاندانوں کو] صحت مند رہنے کے لیے کھانا پہنچانے میں فرق ہے۔ میں نے بچوں کے ساتھ کام کرتے ہو اس کا بہت زیادہ اثر دیکھا ہے۔ آپ ان میں مثبت توانائی دیکھتے ہیں۔” کومبو بچوں کو ماحولیات کے بارے میں آگاہی دینے کی خاطر نصاب تیار کرنے کے لیے اپنی تنظیم کو وسعت دینا چاہتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے براہ راست اقدام بہترین طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کمیونٹیاں صرف اُن چیزوں سے بدلتی ہیں جنہیں وہ دیکھتی ہیں۔ جب آپ جاتے ہیں اور درخت لگاتے ہیں تو لوگ بھی درخت لگاتے ہیں۔ ایک بار جب وہ کوئی کام ہوتا ہوا دیکھ لیتے ہیں تو پھر وہ اسے آگے لے کر چلتے ہیں۔”