اکتوبر 2016 میں جب عراق نے موصل شہر کو داعش کے قبضے سے واپس لینے کی مہم شروع کی تو انٹرنیٹ پر ‘موصل آئی‘ نامی بلاگ کے قارئین نے شہر کی تعمیرِنو کے طریقے ڈھونڈنا شروع کر دیے۔ یہ بلاگ چلانے والا گمنام شخص شہر پر شدت پسندوں کے تسلط کے دوران وہاں کی معلومات فراہم کیا کرتا تھا۔
ان لوگوں نے مل جل کر موصل یونیورسٹی کی لائبریری کی تعمیرِنو اور اسے دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ داعش نے کئی سال پہلے اپنے قبضے کے ابتدائی ایام میں ہی اس لائبریری کو تباہ کر دیا تھا۔ شدت پسندوں نے منظم طریقے سے اس لائبریری کی 10 لاکھ ‘گستاخانہ’ کتابیں بشمول صدیوں پرانے نسخے جلا کر خاکستر کر دیں۔ انہوں نے کیمیا کی چند نصابی کتب کو محفوظ رکھا جن کی مدد سے وہ خام قسم کا دھماکہ خیز مواد بنانا چاہتے تھے۔
یہ لائبریری عراق کے ثقافتی اثاثوں میں ایک ہیرے کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کا شمار مشرق وسطیٰ کے عظیم ترین ادبی مجموعے رکھنے والی لائبریریوں میں ہوتا تھا۔ اگرچہ اس کی ضائع ہو جانے والی بہت سی کتابیں دوبارہ نہیں مل سکتیں، تاہم ‘موصل آئی’ اور اس کے قارئین کو امید ہے کہ لائبریری کی الماریاں بھر کر وہ موصل کو علم کے مرکز کی حیثیت سے اس کی شناخت واپس دلانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

منیاپولس میں عراقی امریکی مفاہمتی منصوبے کی چیئرمین، ایرن ہارٹ کہتی ہیں، “لائبریری کی نئے سرے سے تعمیرِنو طویل مدتی مقصد ہے۔ تاہم مختصر مدتی ہدف یہ ہے کہ اس قدر کتابیں حاصل کر لی جائیں جن کی مدد سے یونیورسٹی کی تعلیمی ضروریات پوری ہو سکیں۔” جب ایک عراقی امریکی رکن نے اِس لائبریری کے بارے میں سن کر بغداد جاتے ہوئے اپنے سوٹ کیس میں کچھ کتابیں لے جانے کی پیش کش کی تو اِن کے گروپ نے اِس سے متاثر ہو کر کتابیں [اکٹھی کرنے] کی ایک مہم چلانے کی ابتدا کی۔
جیمز گولکسن بھی اس سلسلے میں مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایمبری رِڈل ایروناٹیکل یونیورسٹی کے پچھلے سمیسٹر کے دوران موصل کے لیے کتابیں جمع کیں۔ اُن کا کہنا ہے، “لوگوں نے ہمیں یہاں تک کہا کہ’ ہمارے پاس کتابوں سے بھری ہوئی لائبریری ہے جو ہم آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے تمام زبانوں میں کتابیں عطیہ کیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عراق میں پڑہاتے رہے ہیں۔” اپریل کے آخر تک گولکسن 6,200 کتابیں جمع کر چکے تھے۔
گولکسن نے کہا، “ایک پرانا قول ہے کہ جو کتابیں جلاتا ہے وہ لوگوں کو جلاتا ہے اور داعش نے یہی کچھ کیا۔”
‘موصل آئی’ چلانے والے بلاگر نے گولکسن سے اُن کی کتابیں جمع کرنے کی مہم کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ اُس نے اپنے بلاگ میں لکھا، “مجھے یہ سن کر حقیقی خوشی ہوئی ہے کہ آپ جیسا کتاب دوست شخص یہ سب کچھ کر رہا ہے … آپ کو موصل کی علمی زندگی سے دلچسپی ہے۔ مجھے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کر کے خوشی ہوتی ہے جو تمام سرحدوں سے ماورا، دوستی کے اظہار کے طور پر کتاب عطیہ کرتا ہے۔”
گولکسن کہتے ہیں ‘اگرچہ میری رائے میں لوگوں کو تعلیمی وسائل فراہم کرنا اخلاقی اعتبار سے اچھا قدم ہے، تاہم یہ اس لحاظ سے بھی مفید ہے کہ اس سے بنیاد پرستی میں کمی آتی ہے۔” گولکسن نے ایمبری رِڈل میں عالمی سلامتی کے شعبے میں تعلیم حاصل کی اور وہ اس سال قانون کی تعلیم کے لیے کسی لا سکول میں داخلہ لیں گے۔

گولکسن کہتے ہیں، “تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادپرستی، ناخواندگی، سماجی ٹوٹ پھوٹ اور معاشرتی ہم آہنگی میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ تاہم لائبریریاں اور تعلیم خصوصی طور پر ترقی پذیر علاقوں میں ایسے مسائل پر قابو پانے میں مدد دے سکتے ہیں۔” انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ منصوبہ موصل میں موجود نئی نسل کو توانائی بخشے گا۔
ہارٹ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ کتابیں عطیہ کرنا ایک ایسا موثر اور واضح طریقہ ہے جو پرتشدد شدت پسندی کے خلاف جنگ میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
‘موصل آئی’ کے بلاگر کو امید ہے کہ یہ لائبریری دو لاکھ کتابوں کے ساتھ دوبارہ کھل جائے گی۔ اب تک ان کے پاس 10 ہزار کتابیں جمع ہو چکی ہیں جن میں گولکسن کی جمع کردہ 6,200 وہ کتب شامل نہیں ہیں جوبہت جلد عراق پہنچ جائیں گیں۔ عراقی امریکی مفاہمتی منصوبہ، امریکہ میں کتب جمع کرنے کا قومی مرکز قائم کرنے کے لیے گولکسن کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی شراکت کاروں کے ایک نیٹ ورک نے بھی دنیا بھر میں کتابیں جمع کرنے کے ایسے ہی مراکز قائم کر دیئے ہیں۔