ہر سال، ہم میں سے 3 ارب 20 کروڑ لوگوں کو جراثیم شدہ مچھروں سے ملیریا ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔

لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ سلسلہ زیادہ دن جاری نہ رہے۔ 2015ء میں، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے سائنسدانوں نے مچھروں سے پھیلنے والی اس بیماری کے خلاف جنگ کے لیے ایک انقلابی طریقہ دریافت کیا۔ اس طریقے میں مچھر کے اپنے ڈی این اے کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

وہ کیسے؟ اینتھونی جیمز، ایتھن بیئر اور ویلنٹینو گانٹز نامی سائنسدانوں نے مِل کر مچھروں کی جینز میں ردوبدل کیا اور اس مقصد کے لیے ایک نیا  طریقہ استعمال کیا جو مخففاً سی آر آئی ایس پی آر [کرسپر] کہلا تا ہے۔ اس عمل میں کسی جاندار چیز میں جینیاتی تبدیلی کی جاتی ہے۔ کرسپر میں انہوں نے مخصوص جینیاتی مادے کی جگہ دوسرا مادہ استعمال کرتے ہوئے، ملیریا پھیلانے والے طفیلی جرثومے کو ہلاک کیا۔ صرف یہی نہیں، ترمیم شدہ جین والے مچھروں نے اپنی مچھروں سے جنگ کرنے والی جینز اپنے بچوں کو بھی منتقل کر دیں۔ جب یہ جینز مچھروں کی پوری آبادی میں پھیل جائیں گی — تو وہ تمام مچھر — اور اِن سے متاثر ہونے والے تمام لوگ  ۔۔ ملیریا سے پاک ہو جائیں گے۔

ملیریا سے مکمل طور پر پاک مستقبل؟

اگرچہ آرٹیمسنین جیسی دواؤں سے ملیریا سے ہونے والی اموات کی شرح میں 60 فیصد تک کمی لانے میں مدد ملی ہے، تا ہم ملیریا کی ایسی اقسام سے جن میں ان دواؤں کے خلاف  مدافعت پیدا ہو گئی ہے، اس پیش رفت کے ختم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یونیورسٹی آف نوٹر ڈیم کی جینیاتی سائنسدان، نورا بیسنسکی کہتی ہیں، جینیاتی انجینیئرنگ کی بدولت “ملیریا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد صفر ہو سکتی ہے۔ مچھر اپنا کام کرتے ہیں، اور ایسے مقامات تک پہنچ جاتے ہیں جہاں جانا ہمارے بس میں نہیں ہوتا۔”

اگرچہ سائنسدان 1970 کی دہائی سے جینز میں تبدیلیاں کرتے چلے آ رہے ہیں، تاہم کرسپر کا طریقہ پچھلے تمام طریقوں کے مقابلے میں زیادہ کارگر اور کم خرچ ہے۔ 2015ء میں، “سائنس” نامی ایک بین الاقوامی جریدے نے،  اسے ” سال کی سب سے زیادہ اہم دریافت ” قرار دیا۔

کرسپر کے فوائد انسدادِ ملیریا سے بڑھکر کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ وہ دن آ سکتا ہے جب سائنسدان اس کے ذریعے خون کے سرخ خلیوں، پھیپھڑوں اور پٹھوں اور عضلات کی کمزوری جیسی جینیاتی بیماریوں پر قابو پالیں گے۔ بلکہ اس کی بدولت کیلے تک کو معدوم ہونے سے بچایا جا سکے گا۔

سائنس دان اب بھی اپنی لیبارٹریوں اور کانفرنسوں میں بہت محنت سے کام کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سی آر آئی ایس پی آر جینیاتی ٹیکنالوجی کو اخلاقی اور محفوظ طریقے سے تیار اور استعمال کیا جا سکے۔ (مئی میں عالمی ادارہ صحت نے مچھروں کے بارے میں ذمہ دارانہ تحقیق کے لیے ترمیم شدہ رہنما ج اصول جاری کیے ہیں۔)

ایک طرف نئے طریقوں کو مزید ترقی دی جارہی ہے، اور دوسری طرف امریکہ، صدر کے ملیریا کے پروگرام کے تحت، ملیریا کے خلاف جنگ کی مقامی کوششوں میں مدد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پروگرام میں ایسے علاقوں میں جہاں اس بیماری کے پھیلنے کا خطرہ موجود ہو، کیڑے مار دواؤں کے چھڑکاؤ، اور ایسی مچھردانیوں کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے جن پر دوائیں چھڑکی ہوتی ہیں۔ ملیریا کے انسداد کی بین الاقوامی مہم کا مقصد 2050ء  تک دنیا سے ملیریا کا  مکمل خاتمہ ہے۔

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 21 اپریل 2017 کو ایک مختلف شکل میں پہلے بھی شائع کیا جا چکا ہے۔

 

ا