میاں بیوی کی جانب سے کرڑوں کی مالیت کے کیڑوں کا عطیہ — محققین کے لیے ایک انمول تحفہ

دنیا میں کیڑوں مکوڑوں کے دو ممتاز ترین ماہرین، امریکہ کی ایک یونیورسٹی کو اپنے جمع کردہ کیڑوں کا ذخیرہ عطیے کے طور پر دے رہے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور اہم ترین ذخیرہ ہے اور اس کی مالیت کروڑوں ڈالر کے برابر ہے۔ دنیا بھر کے محققین کے لیے یہ ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔

چارلی اور لوئی او برائین کیڑوں کا جو ذخیرہ ایریزونا یونیورسٹی کے سپرد کر رہے ہیں اس میں 10 لاکھ سے زیادہ  وی وِل کہلانے والی ایک قسم کی اُس سونڈھی کے علاوہ جو دنیا بھر میں فصلیں تباہ کرتی رہی ہے، 250,000  تھوڑے فاصلے تک چھلانگیں لگانے والے ٹڈی نسل کے کیڑے بھی شامل ہیں۔

یونیورسٹی میں کیڑوں مکوڑوں کے ماہر نیکو فرانز نے اخبار دی گارجین کو بتایا کہ  ذخیرے میں شامل ہر کیڑے  کی قیمت 5 ڈالر سے لیکر 300  ڈالر تک ہے۔ کسی کیڑے کی قیمت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کیڑا کتنا نایاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ او برائین کے کیڑوں کے ذخیرے میں ہوسکتا کہ 1,000 کے قریب کیڑے “سائنس کے لیے نئے” ہوں۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس تحفے نے کمیاب اور گمنام انواع کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اور یہ اضافہ بےانتہا سائنسی قدرو قیمت  کا حامل ہو سکتا ہے۔

نئی انواع کے کیڑوں کو شناخت کرنے اور ان کے نام رکھنے کی خاطر، آپس میں شادہ شدہ سائنس دانوں کے اِس جوڑے نے پروفیسروں کی حیثیت سے اپنی خدمات بھی بطور عطیہ پیش کی ہیں۔

کپاس کی سونڈھی تقریباً 100 سال پہلے امریکہ میں کپاس کی صنعت کو تباہ کرنے کی وجہ سے مشہور ہوئی۔ شکر قندی کی فصل کی دشمن سونڈھی وسطی اور جنوبی امریکہ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ کے کاشتکاروں کے لیے مصائب پیدا کرتی رہی ہے ۔

لیکن یونیورسٹی نے کہا ہے کہ سونڈیاں فائدہ مند بھی ہو سکتی ہیں۔ دو درجن ملکوں نے ایسے خشکی اور آبی پودوں پر قابو پانے کے لیے سونڈیوں کو استعمال کیا ہے جو تیزی سے پھیلتے ہیں اور دوسرے پودوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے فرانز نے “اس قدر بیش قیمت چیزیں جمع کرنے اور اسی کے ساتھ ساتھ اس قدر بے غرضی کا مظاہرہ کرنے اور وسیع پیمانے پر دوسروں کو اس میں شریک کرنے” پر اوبرائین جوڑے کی تعریف کی۔