میکسیکو تک زیر زمین راستوں پر چل کر ہزاروں افراد نے آزادی پائی

زیادہ تر امریکی تو یہی جانتے ہیں کہ انیسویں صدی کے اوائل میں غلام بنائے گئے اندازا ایک لاکھ افراد نے زیر زمین راستوں کو استعمال کرتے ہوئے شمالی امریکہ اور کینیڈا میں کس طرح آزادی پائی۔

لیکن زیر زمین اُن جنوبی راستوں کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں جن پر غلام بنائے گئے لوگ آزادی پانے کے لیے میکسیکو پیدل چل کر پہنچے۔

ایلس ایل بومگارٹنر، پی ایچ ڈی جنوبی کیلی فورنیا کی یونیورسٹی میں تاریخ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ” ساؤتھ ٹو فریڈم: رن اوے سلیوز ٹو میکسیکو” اور “دی روڈ ٹو سول وار” نامی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ” [غلامی سے] فرار کا یہ راستہ امریکی تاریخ کے لیے ضروری تھا۔ غلام بنائے گئے لوگوں کے میکسیکو فرار ہونے کے خطرے نے ٹیکساس اور لوزیانا میں غلامی کو عدم استحکام کا شکار بنایا۔”

 1865 کا فرار ہونے والے غلاموں کے بارے میں ایک اخباری تراشہ (Galveston Daily News)
10 مئی 1865 کو گیلوسٹن ڈیلی نیوز میں شائع ہونے والا بھگوڑے غلاموں کے بارے میں ایک نوٹس۔ یہ نوٹس اُس وقت ایک عام بات تھی کیونکہ غلام بنانے والے “مفروروں” کی بازیافت کے لیے کوششیں کیا کرتے تھے۔ (Galveston Daily News)

بومگارٹنر کا کہنا ہے کہ جنوبی راستے کا کم مطالعہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں غلامی کے خاتمے کے رہنماوں اور اُن رسمی محفوظ گھروں پر انحصار نہیں کیا جاتا تھا جو کہ شمال کی طرف جانے والے غلاموں کے راستوں پر ایک عام بات تھی۔

اس کے بجائے زیر زمین  جنوبی راستوں کے بارے میں غلام بنائے گئے لوگ سینہ بہ سینہ چلنے والی معلومات پر انحصار کرتے تھے۔

بومگارٹنر کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ٹیکساس میں کام کرنے والے میکسیکن مزدور غلاموں کو میکسیکو جانے والے راستوں کے بارے میں ہدایات اور معلومات دے دیا کرتے تھے۔ بات ختم کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، “جتنا کچھ لوگ سمجھتے ہیں اُس کے مقابلے میں یہ عمل بہت کم منظم تھا۔”

میکسیکو نے امریکہ سے پہلے غلاموں کی آزادی کا وعدہ کیا

چونکہ میکسیکو نے 1829 میں غلامی کو ختم کر دیا تھا، اس لیے میکسیکو ایک ایسا محفوظ ملک بن گیا تھا جہاں غلام بنائے گئے لوگ فرار ہوکر جا سکتے تھے اور نئی زندگیاں شروع کر سکتے تھے۔

بومگارٹنر کو سب سے پہلے جنوبی زیر زمین راستوں کا علم میکسیکو کی تاریخی دستاویزات کے مطالعہ کرتے ہوئے ہوا۔ وہاں اُن کی نظر ایک ایسے مقدمے پر پڑی جس میں ٹیکساس کے زمینوں کا ایک مالک فرار ہونے والے غلاموں کو واپس امریکہ لے جانے کی کوشش میں میکسیکو گیا۔ میکسیکو کے قانونی نظام نے اس کے دعوے کو مسترد کر دیا۔

انہی دنوں سیمی نول نامی سیاہ فام آبائی امریکیوں نے لاس میسکوگوس کے نام سے ایک ملیشیا تشکیل دی۔ اس ملیشیا نے بھی غلام بنائے گئے افراد کا اُن لوگوں کے خلاف دفاع کیا جو میکسیکو میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

گمنام نشانیوں کے مطابق چلنا

مورخین اور ماہرین بشریات نے کم سے کم معلومات کے  ساتھ اور شمالی راستے کے اُس دور کے دستکاروں کی بنائی گئی اشیا اورنشانیوں کے بغیر جنوبی زیر زمین راستے کا نمونہ تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔

بومگارٹنر نے کہا، “یہ حقیقت کہ ہمارے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بہت زیادہ ذرائع نہیں ہیں کہ [یہ جان سکیں کہ اِن راستوں کو] کیسے استعمال کیا جاتا تھا اور انہوں نے حقیقت میں یہ کام کیسے کیا، بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ یہ کام کرنے میں مکمل طور پر کامیاب رہے کیونکہ انہوں نے ہمارے لیے یا اُنہیں غلام بنانے والوں کے لیے اُنہیں ڈھونڈ نکالنے کا کوئی نشان نہیں چھوڑا۔ ”

 چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے ایک ضعیف آدمی کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر (Library of Congress)
16 جون 1937 کو سان انٹونیو، ٹیکساس میں 97 سال کی عمر میں ماضی میں غلام بنائے گئے فیلکس ہئے وُڈ (Library of Congress)

2010 میں یو ایس نیشنل پارک سروس نے نیکو ٹش، لوزیانا سے ٹیکساس اور وہاں سے آگے مونکلووا، میکسیکو تک ایک  فرضی راستے کا نقشہ تیار کیا۔

میکسیکو میں نئی زندگی کا آغاز

بومگارٹنر اور دیگر سکالروں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ 1700 اور 1865 کے درمیان غلام بنائے گئے 10,000 افراد فرار ہوکر میکسیکو گئے۔ بومگارٹنر نے 1850-1859 کی درمیانی مدت کا مطالعہ کیا اور اندازہ لگایا کہ غلام بنائے گئے 5,000 افراد میکسیکو گئے۔ اس طرح یہ دور اس راستے کا متحرک ترین دور ہے۔

میکسیکو میں ان کی زندگیوں کے بارے میں اس ایک بات کے سوا بہت کم معلومات دستیاب ہیں کہ وہ کبھی امریکہ واپس نہیں آئے۔

فیلکس ہئے وُڈ ٹیکساس میں بنائے جانے والے ایک سابقہ غلام تھے۔ 1936 میں ہئے وُڈ نے زبانی طور پر تاریخ بیان کرتے ہوئے  آزادی حاصل کرنے کی خاطر شمال یا جنوب کی جانب جانے کے اپنے خاندان کے انتخاب کے بارے میں بات کی۔

اِن کے خاندان کے لوگوں نے اُن کا مزاق اڑایا جنہوں نے شمال کی طرف جانے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا، “ہمیں توپیدل ہی چلنا ہے، مگر چلنا جنوب کی سمت میں ہے اور ہم  ریو گراندے [دریا] کو عبور کرتے ہی آزاد ہو جائیں گے۔”

ہئے وُڈ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، “میکسیکو میں آپ آزاد رہ سکتے ہیں۔ سیکڑوں غلام میکسیکو گئے اور بہتر طور پر اپنی زندگیاں گزارنے لگے۔ ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ میکسیکن کیسے بنے۔ [اُن کے الفاظ یہ تھے] انہوں نے اپنے بچوں کو صرف میکسیکن زبان بولتے ہوئے بڑا کیا۔”

امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سفارتی تعلقات کی 200 ویں سالگرہ اور سیاہ فاموں کی تاریخ کا مہینہ منانا ہمیں غلامی اور غلام بنائے گئے افراد کے اُن طریقوں پر غور کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے غلامی کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ ایسا کرنے سے ہمیں امیدوں بھرے مستقبل کے لیے بنیادی کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔