نئی نسل کو جان لوئس کی کہانی متعارف کرانے والا تصویری خاکوں والا ناول

عالمی وبا ہو یا نہ ہو، امریکی اس ہفتے 1963ء کے نوکریوں اور آزادی کے لیے امریکیوں کے واشنگٹن میں کیے جانے  والے مارچ کی یاد منا رہے ہیں۔ یہ مارچ اُس تحریک کی انتہا تھا جو شہری حقوق کے امریکی قوانین کی بنیاد بنی۔

پورے امریکہ اور واشنگٹن میں آن لائن ہونے والی تقریبات میں اس مارچ کی یاد منائی جائے گی۔ 28 اگست 1963 کو واشنگٹن میں ہونے والے اس مارچ کے لیے لگ بھگ اڑھائی لاکھ افراد اکٹھے ہوئے۔

آنجہانی کانگریس مین جان لوئس نے ایک شریک مصنف کی حیثیت سے تین جلدوں پر مشتمل “مارچ” کے عنوان سے تصویری خاکوں والا ایک ناول لکھا۔ ناول کی یہ جلدیں 2013 سے 2016 تک قسط وار شائع ہوئیں اور یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہیں۔ اس ناول کو پڑھکر بہت سے لوگ متاثر ہوئے۔ اس ناول کی تیسری جلد نے قومی کتاب کا ایوارڈ جیتا۔

 مصور کی بنائی ہوئی سیاہ اور سفید رنگوں والی تصویر میں لنکن کی یادگار سے ایک منظر۔ پس منظر میں واشنگٹن کی یادگار دکھائی دے رہی ہے ۔ نیٹ پاول کا خاکہ 'مارچ نامی ناول سے۔ (Art by Nate Powell from March © John Lewis and Andrew Aydin, courtesy of Top Shelf Productions)
1963ء میں واشنگٹن میں ہونے والا مارچ۔ نیٹ پاول کے خاکے ‘مارچ نامی ناول سے۔ (Art by Nate Powell from March © John Lewis and Andrew Aydin, courtesy of Top Shelf Productions)

57 برس قبل اُس دن لنکن کی یادگار پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مشہور زمانہ “میرا ایک خواب ہے” نامی تقریر کے فوراً بعد تقریر کرنے والے 23 سالہ لوئس، سب سے کم عمر مقرر تھے۔

شیئر امیریکا نے لوئس کے “مارچ” کے شریک مصنف، اینڈریو ایڈن اور خاکے بنانے والے نیٹ پاول سے آنجہانی کانگریس مین کے ساتھ اُن کی فنی شراکت کاری کے بارے میں جاننے کے لیے رابطہ کیا۔

برسوں قبل یہ سب کچھ اُس وقت شروع ہوا جب ایڈن، لوئس کے دفتر میں ایک معاون کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے رفقائے کار کو بتایا کہ وہ خاکوں کی کتابیں لکھنے والوں اور اِن کتابوں کے مداحوں کے سالانہ کنونشن میں جا رہے ہیں۔ یہ سن کر ایڈن کے ساتھیوں نے انہیں چھیڑنا شروع کر دیا۔ پھر یہ سب کچھ ایک دن اس وقت رک گیا جب لوئس نے آگے بڑھکر یہ کہا کہ وہ ایک نوجوان سرگرم کارکن سے لے کر طویل عرصے تک کانگریس کا رکن رہنے کے اپنے پورے سفر کے دوران، 1957ء کی کنگ کے بارے میں خاکوں کی ایک کتاب سے حوصلہ پاتے رہے۔

ایڈن نے لوئس کے سامنے یہ  تجویز پیش کی کہ وہ خاکوں والی کتابوں کے بارے میں اپنے تجربات بیان کریں۔ مگر لوئس جو “واکنگ وِد دا وِنڈ” (ہوا کے سنگ چلنا) کے عنوان سے یادوں پر مبنی ایک کتاب پہلے ہی لکھ چکے تھے، اس خیال کے بارے میں متذبذب تھے۔ ایڈن کہتے ہیں، “(ہمیں) کاگریس مین لوئس کو اس بات پر قائل کرنے میں تھوڑی سی محنت کرنا پڑی کہ خاکوں والی کتاب نئی نسلوں تک شہری حقوق کی تاریخ کو پہنچانے کا ایک اچھا طریقہ ہے۔ جب وہ قائل ہوگئے تو انہوں نے مکمل دلجمعی سے اس خیال کو اپنا لیا۔”

ایک جدید کلاسیکل کتاب  کی تخلیق

ایڈن کو لوئس کے ساتھ  دفتری اوقات کے بعد اور اختتام ہفتہ کی نشستیں آج بھی یاد ہیں۔ اس دوران وہ کانگریس مین کو بتاتے رہے کہ کس طرح کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے اور اس پر وہ کانگریس مین کی رائے لیتے رہے۔

 تین آدمی تصویر کھچوا رہے ہیں اور پس منظر میں پل کا ڈھانچہ دکھائی دے رہا ہے (© Sandi Villareal)
سیلما، الاباما میں ایڈمنڈ پیٹس پل پر پاول، بائیں اور ایڈن، دائیں شریک مصنف لوئس کے ساتھ تصویر کھچوا رہے ہیں۔ (© Sandi Villareal)

جب بھی کوئی جلد شائع ہوتی تو تینوں ساتھی عوامی تقریبات میں اکٹھے شریک ہوتے۔ ایڈن کہتے ہیں کہ بعض اوقات “حاضرین میں سے کوئی سوال پوچھ لیتا یا جس جگہ ہم گئے تو اُس جگہ سے جڑی” لوئس کو “کوئی چیز یاد آ جاتی تو وہ کہتے، ‘ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یہ (چیز کتاب میں) شامل ہے۔'”

پاول نے شہری حقوق کے دور کی ٹی وی کی خبروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تصویری خاکے سیاہ، سفید اور خاکی رنگوں میں بنائے۔ وہ باہمی تعاون کے اس عمل کو “انتہائی گہرا” قرار دیتے ہیں جس میں ہر قدم پر سہ طرفی رابطہ ضروری ہوا کرتا تھا۔

پاول کہتے ہیں، “اینڈریو کے مسودے کی تفصیلات کو میں عام طور پر دوسرے تاریخی واقعات کے حوالوں کے ساتھ ملا کر دیکھا کرتا  تھا۔” اس کے ساتھ ساتھ  شہری حقوق کے زمانے کی تصاویر تلاش کرتے ہوئے لوئس کی شائع شدہ یاد داشتوں سے بھی حوالے دیا کرتا تھا۔ ہم تینوں اکثر اکٹھے سفر کیا کرتے تھے۔ اس دوران لوئس سے نئی نئی تفصیلات ملتی تھیں جس کی وجہ سے “یہ سارا عمل بڑا تفصیلی بن جایا کرتا تھا۔”

شہری حقوق کے سرگرم کارکنوں نے نسلی بنیادوں پر کی جانے والی علیحدگی اور افریقی نژاد امریکیوں کے ووٹ دینے کے حقوق سے انکار کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جن کے دوران ہونے والے تشدد کو برداشت کیا۔ پاول کو اس سوال کے بارے میں جدوجہد کرنا پڑی کہ تشددد کی منظر کشی کس طرح کی جائے۔

تصوہر خاکوں والی کتاب میں باتیں کرتا ہوا آدمی۔ "مارچ" نامی کتاب سے نیٹ پاول کا تصویری خاکہ (Art by Nate Powell from March © John Lewis and Andrew Aydin, courtesy of Top Shelf Productions)
ایک پرعزم نوجوان جان لوئس۔ “مارچ” نامی کتاب سے نیٹ پاول کا تصویری خاکہ (Art by Nate Powell from March © John Lewis and Andrew Aydin, courtesy of Top Shelf Productions)

پاول کہتے ہیں، “اگرتصویر بناتے ہوئے مجھ میں تشدد کا سلسلہ نفرت، وحشت اور اضطراب کا جذبہ بھڑکاتا تھا تو مجھے پتہ چل جاتا تھا کہ میں درست طریقے سے منظر کشی کر رہا ہوں۔ تشدد بدصورت اور خوفناک ہوتا ہے لہذا میں نے اپنے اس عمل کو فوری اور خام رکھا۔”

‘ایک واقعہ’ … اور ایک سبق

“مارچ” کی اشاعت کے بعد، ایڈن کو جو ابھی تک تصویری خاکوں کی کانفرنس کے مداح ہیں، میلے میں لوئس کو متعارف کرا کے بہت اچھا لگتا تھا۔ ایڈن کہتے ہیں، “کانگریس مین لوئس کو تصویری خاکوں کی کانفرنس میں جانا بہت پسند تھا۔ وہ اسے ایک ‘ظہور پذیر ہوتا ہوا واقعہ کہا کرتے تھے۔’ انہیں لوگوں سے محبت تھی اور لوگوں کے کسی نئے گروپ کے درمیان ہونا ان کے لیے خوش کن ہوا کرتا تھا۔ تصویری خاکوں کی اپنی پہلی کانفرنس میں موجودگی کے دوران آٹوگراف لینے والوں کی لمبی لائن کو دیکھ کر اُن کے چہرے پر پھیلی خوشی مجھے یاد ہے۔”

ایڈن یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لوئس کو خاص طور پر اس وقت بڑے خوش ہوتے تھے جب وہ تصویری خاکوں کے میلوں میں بچوں سے ملتے ہوئے مشہور احتجاجی مارچوں کی نقل اتارا کرتے تھے۔

ایڈن کہتے ہیں، “تصویری خاکوں کی کانفرنسوں میں مارچوں کی قیادت کرنا غیر حقیقی ہوتا تھا۔ ہم آغاز تو چند سو طالبعلموں سے کیا کرتے تھے مگر جس وقت ہم کنونشن (ہال تک) پہنچتے تھے تو ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ مارچ کر رہے ہوتے تھے۔  … ہم نئی نسلوں کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے تھے کہ مارچ کس طرح کرنا ہے تاکہ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے تیاری کر سکیں۔”

پاول کہتے ہیں کہ مارچ کی تینوں جلدیں اس وقت بہت سے سکولوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ یہ بتاتی ہیں کہ دہائیوں پہلے نوجوان لوگ معاشرے میں کس طرح تبدیلیاں لے کر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج “ہر نوجوان فرد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اُس کی زندگی کا یہ لمحہ نہ آج ایک مشق نہیں ہے اور نہ پہلے کبھی تھا۔”