
ہو سکتا ہے کہ کسی امریکی انتخاب میں بڑا سخت مقابلہ ہوا ہو مگر ایک بار جب جیتنے والے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو نومنتخب صدر کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی فعال حکومت تشکیل دے جو عوامی امنگوں کی ترجمان ہو۔
صدارتی انتقالِ اقتدار کی ٹیموں کے ساتھ کام کرنے والے غیرمنفعتی “پارٹنرشپ فار پبلک سروس” نامی ادارے میں “صدارتی انتقالِ اقتدار کے مرکز” کے ڈائریکٹر، ڈیوڈ ایگلز کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اپنے پیشرو صدور کی طرح، ڈونلڈ ٹرمپ بھی 20 جنوری کو ہونے والی حلفِ وفاداری کی تقریب والے دن سے ہی اپنی انتظامیہ کو کام کرنے کے لیے تیار کرنے کی خاطر، اپنے پہلے 100 دنوں کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کریں گے۔
100 دن ہی کیوں؟
تاریخ دان، صدارتی کامیابی کے پیمانے کا 100 دنوں کا نظریہ وضح کرنے کا اعزاز،1933ء میں صدارتی عہدہ سنبھالنے والے امریکی صدر، فرینکلن روزویلٹ کو دیتے ہیں۔ روزویلٹ کو 1933ء میں گھمبیر اقتصادی مسائل کا سامنا تھا۔ لہذا انہوں نے اپنی کابینہ پر زور دیا کہ وہ نئے پروگرام تیزی سے شروع کریں۔
100 دنوں کا عرصہ اس مدت کا غماز ہوتا ہے جب صدر کا طرزِ قیادت نیا دکھائی دے رہا ہوتا ہے اور اکثراس کی طاقت اور اثرورسوخ اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔
ایگلز کا کہنا ہے کہ 100 دنوں کے دوران روائتی خیرسگالی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے عمل کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لہذا نئی انتظامیہ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ 20 جنوری کو وائٹ ہاوًس کا تمام عملہ اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لے اور چوٹی کے 150 عہدوں کے لیے لوگوں کو نامزد کر دیا جائے تاکہ اگست تک ان کی سینیٹ سے توثیق مکمل ہو جائے۔
پہلے 100 دنوں میں کیا ہوتا ہے؟

ٹرمپ کی صدارتی انتظامیہ کے پہلے 100 دنوں کا مطلب وفاقی حکومت کو چلانے کے لیے اپنی ٹیم میدان میں اتارتے ہوئے، اپنے ایجنڈے کے اہم ترین نکات کو آگے بڑھانے کا پیچیدہ کام کرنا ہے۔
نیا صدر کابینہ کے وزراء اور 4,000 سیاسی طور پر تعینات کیے جانے والے عہدیداروں کے ناموں کا اعلان کرتا ہے جن میں سے 1,100 کے لیے امریکی سینیٹ سے توثیق حاصل کرنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صدر کو بالعموم اپنے حلف وفاداری کے ایک ماہ کے اندر کئی ہزار صفحات پر مشتمل وفاقی بجٹ کانگرس کو پیش کرنا ہوتا ہے۔
ٹرمپ پہلے ہی 21 نومبر کو امریکی عوام کے نام ایک یوٹیوب ویڈیو میں اپنی پالیسی کے اغراض و مقاصد بیان کر چکے ہیں۔ اس ویڈیو میں انہوں نے اُن سلسلہ وار تبدیلیوں کا ایک خاکہ پیش کیا ہے جو وہ اپنی صدارت کے پہلے دن ایک انتظامی حکم کے ذریعے لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ان تبدیلیوں میں نئے ضوابط کی حدود کا تعین اور وفاقی عہدیداروں پر سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد لابی اسٹ بننے پر پانچ سال کی پابندی شامل ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “میرے ایجنڈے کی اساس ایک سادہ سا بنیادی اصول ہے یعنی امریکہ کو سب پر مقدم رکھنا۔ خواہ یہ فولاد سازی ہو، کاریں بنانا یا بیماریوں کا علاج کرنا ہو، میں چاہتا ہوں کہ آئندہ صنعت سازی اور جدت طرازی، اس جگہ، یہاں، ہمارے عظیم وطن کے اندر وقوع پذیر ہو۔”
جیسا کہ صدر جان کینیڈی نے اپنے 1961ء کے افتتاحی خطاب میں کہا تھا، “یہ سارے کام پہلے 100 دنوں میں مکمل نہیں ہوں گے۔ نہ ہی یہ ہمارے پہلے 1,000 دنوں میں، نہ ہماری اس انتظامیہ کی مدت کے دوران، بلکہ شاید اس کرہ ارض پر ہمای زندگی کے دوران بھی مکمل نہیں ہوں گے۔ مگر آئیے ان کی ابتدا تو کریں۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ کیتھلین مرفی نے تحریر کیا اور شیئر امریکہ کے مارک ٹرینر نے ان کی مدد کی۔