جنگی جرائم پر مقدمات چلانے کے لیے انہماک اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے یہ دونوں اوصاف ضروری ہیں۔
ایلائی روزنبام امریکی محکمہ انصاف میں نازی جنگی مجرموں کی تفتیش اور ان پر مقدمات چلانے کا کام دہائیوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آج کل وہ یوکرین میں جنگی جرائم اور دیگر مظالم کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے دیگر وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے، محکمہ انصاف کی کاوشوں کو مربوط بنا ر رہے ہیں۔
14 جولائی کو ہیگ میں ہونے والی یوکرین کے بارے میں احتسابی کانفرنس میں روزنبام نے کہا “کہ قانون کی حکمرانی کا احترام کرنے والے ممالک کی حیثیت سے یقینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ [ہم] اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ لوگ انصاف کی گرفت سے نہ بچنے پائیں جنہوں نے یوکرین پر روس کے بلا اشتعال حملے کے بعد سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔”
مثال کے طور پر کیئف کے مضافاتی علاقے بوچا سے روسی افواج کے انخلا کے بعد اپریل میں مقامی حکومت کے اہلکاروں نے سینکڑوں لاشیں اٹھائیں اور اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔ اِن مظالم نے ساری دنیا کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا اور کئی ممالک نے احتجاجاً اپنے ہاں سے روسی سفارت کاروں کو نکال دیا۔

14 جولائی کو دی ہیگ میں دیئے گئے ایک بیان میں امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “ہر ڈھائے جانے والے ظلم سے مصائب کی لہریں اٹھتی ہیں جنہیں ہم میں سے زیادہ تر لوگ سمجھ نہیں پاتے… یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اِن مصائب کے ڈہانے والوں کو جوابدہ ٹھہرائیں اور متاثرین کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد کو انصاف فراہم کریں اور اُن کی مدد کریں۔”
جنگی جرائم کے سینکڑوں مقدمات کا تجربہ
روزنبام کو ان کے برسوں پر محیط امریکہ سے نازی جنگی مجرموں کی شناخت کرنے، ان کی شہریت ختم کرنے اور ملک بدر کرنے کے کام کی وجہ سے “نازیوں کا شکاری” کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 100 ایسے مقدمات پر کام کیا جن کے نتیجے میں نازی ملزموں کی شہریت واپس لے لی گئی یا انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ اِن میں 2020 میں ٹینیسی میں نازی حراستی کیمپ کے ایک سابق گارڈ کے خلاف جرم کے ارتکاب کے 75 سال بعد کامیابی کے ساتھ مقدمہ چلانا بھی شامل ہے –
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے جون میں محکمہ انصاف میں جنگی جرائم کے احتساب کے مشیر کے طور پر روزنبام کی تقرری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ “جنگی مجرموں کو [دنیا میں] چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی۔”
روزنبام اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بوسنیا، گوئٹے مالا اور روانڈا میں ڈھائے جانے والے مظالم سے جڑے جنگی جرائم کے مقدمات بھی چلا چکے ہیں۔
روزنبام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “یوکرین میں اس طرح کے جرائم کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے [موزوں] حالات پیدا ہونے میں کچھ وقت، حتٰی کہ برسوں کا وقت بھی لگ سکتا ہے۔ تاہم میں یہ عرض کر دوں کہ حالیہ تاریخ گواہ ہے کہ مہذب دنیا اِن جرائم پر سزا سے استثنیٰ کو ختم کرنے کے لیے ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ پرعزم ہے۔”
روزنبام نے کہا کہ ان کی ٹیم ممکنہ جنگی جرائم کے شواہد دیگر ممالک کے تفتیش کاروں کے ساتھ شیئر کرے گی۔
“میں پرامید ہوں کہ
انصاف مل کر رہے گا۔”~ ایلائی روزنبام
روزنبام نے کہا کہ زیادہ تر ممکنہ مقدمات میں قانونی کاروائی یوکرین ہی کرے گا۔ تاہم لوگوں پر انفرادی طور پر مقدمادت دیگر ممالک میں بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ امریکہ یوکرین میں مبینہ مظالم کے جرائم کی تحقیقات کرنے اور ثبوت محفوظ کرنے کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی کوششوں میں بھی ہاتھ بٹا رہا ہے۔
روزنبام نے 14 جولائی کو ہیگ میں کہا کہ “اب جب ہم بات کر رہے ہیں اس لمحے بھی شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ ہم وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر ہمیں معیار کو بھی یقینی بنانا چاہیے۔”