ناسا کے تحت ہونے والے اس مقابلے کے لیے  دو لاکھ  طلبا نے درخواستیں دیں جن میں گیون واسندانی  نمایاں تھے۔ متحدہ عرب امارات کے ایک ثانوی سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے اس 15 سالہ طالب علم نے خلائی جہاز بنانے میں استعمال ہونے والے مواد کی آزمائش کرنے کے لیے تجربے کا ایک طریقہ وضع کیا۔ اس طالب علم سمیت جیتنے والے دیگر طلبا کے پراجیکٹوں کو اب ناسا خلا میں پہنچائے گا۔

واسندانی کی اس جیت کے پیچھے متحدہ عرب امارات اور امریکی خلائی اداروں کے درمیان گہرا تعاون کار فرما ہے۔ 2016ء  میں دونوں ممالک نے مستقبل میں مریخ پر بھیجے جانے والے مشن کے لیے مل جل کر کام کرنے کا عہد کیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کے خلائی ادارے کے سربراہ خلیفہ الرومیثی کا کہنا ہے”متحدہ عرب امارات اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک دوسرے کے بہت پرانے حلیف ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیان گہرے معاشی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات ہیں۔”

خلائی تجربات سے حاصل ہونے والے فوائد سائنسی ترقی سے کہیں زیادہ بڑھکر کردار ادا کرتے ہیں۔ الرومیثی کہتے ہیں، “خلائی  شعبہ معاشی ترقی اور تنوع اور مزید روزگار کے مواقع  پیدا کرنے میں متحرک کردار ادا کرتا ہے۔ اس سے سائنسدانوں اور انجینئروں کو صنعت و حرفت میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے  کے مواقع ملتے ہیں اور ہماری روزمرہ کی زندگیوں کو بہت زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔”

ہو سکتا ہے کہ مستقبل کے اِن قائدین میں سے ایک پہلے ہی سے یہ کام کر رہا ہو۔ جس مقابلے میں واسندانی نے حصہ لیا اس کا نام  “کیوبز اِن سپیس” یعنی خلا میں مکعب ہے۔ اس مقابلے کا انعقادIdoodledu Inc.  نامی ایک غیر منفعتی ادارے،  ناسا اور دیگر  اداروں کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ دنیا بھر کے طلبا اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں  اور اپنے  خیالات اور منصوبہ جات تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ اونچی اڑان والے تجربات کر سکتے ہیں۔ واسندانی اور جیتنے والے دیگر 99 طلبا کے  تیار کردہ تجرباتی مکعب  اگست اور ستمبر میں ناسا کے سائنسی غبارے  کے ذریعے خلاء میں  بھیجے جائیں گے۔

اس میں مشکل کیا ہے؟  طلبا کو اپنا پراجیکٹ 40  ملی میٹر کے ایک مکعب میں سمونا ہوتا ہے۔

مکعب  کے اندر کیا ہے؟

واسندانی نے جو کچھ کیا اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: اس نے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا ہے جس کے ذریعے خلائی جہازوں میں استعمال ہونے والے متعدد موادوں کو انتہائی چھوٹی خوردبینی جسامت کی حامل نلیوں میں سمویا جاتا ہے۔ ان نلیوں  پر جدید کاربن کی ایک  تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ واسندانی کو امید ہے کہ کاربن کی تہوں والے یہ مواد آنے والے وقت میں خلابازوں اور ان کے زیرِاستعمال آلات کو بیرونی خلا میں شدید تابکاری سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

خلیج ٹائمز سے بات کرتے ہوئے واسندانی نے کہا کہ ان کے تجربے کا انتخاب کیا جانا ایک سنسنی خیز موقع تھا۔ خلائی جہازوں میں استعمال ہونے والے ان کے تیار کردہ مواد کے کاربن کی تہہ والے نمونے ناسا کے سائنسی غبارے میں زمین سے چالیس ہزار میٹر کی بلندی پر پرواز کریں گے۔

واسندانی  نے اخبار کو بتایا کہ وہ امارات کے مریخ کے اُس مشن سے متاثر ہوئے ہیں جس کے تحت متحدہ عرب امارات کا 2020ء  میں ایک خلائی جہاز زمین کے ہمسائیگی میں واقع اس سیارے پر بھیجنے کا منصوبہ ہے۔ جب اسے روانہ کیا جائے گا تو یہ کسی بھی عرب ملک کی جانب سے مریخ کی طرف بھیجا جانے والا اولین مشن ہو گا۔

زمین کے حفاظتی مقناطیسی میدان سے پرے ایسے لمبے سفر کے لیے تابکاری شعاعوں سے تحفظ   انتہائی لازمی ہوتا ہے۔ واسندانی کے تجربے سے مستقبل میں خلا کی گہرائیوں میں  کیے جانے والے تحقیقی سفر کے دوران خلابازوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

2014ء  سے کیوب اِن سپیس نامی پروگرام  کے تحت57  ممالک کے طلبا کے تیار کردہ 600  سے زائد تجربات کو خلا میں آزمایا جا چکا ہے۔

اگر آپ اس پروگرام میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو cubesinspace.com  نامی ویب سائٹ پر جائیں۔ اس سے آپ کو وہ مدد ملے گی جو واسندانی کو ملی یعنی تخیل اور ایک اچھا استاد۔

واسندانی نے بتایا، “میرے سائنس کے استاد نے ہمیشہ میری اپنے خوابوں پر یقین رکھنے میں حوصلہ افزائی کی۔”