ناسا کی مریخ کی پرواز کی سربراہی کرنے والی برمی نژاد امریکی خاتون سے ملیے [ویڈیو]

میمی آنگ کے لیے تاریخ میں پہلی بار کوئی کام کرنا انوکھی بات نہیں۔ وہ برما میں پلی بڑھیں جہاں اُن کی والدہ ریاضی میں ڈاکٹریٹ کرنے والی ملک کی پہلی خاتون تھیں۔ 19 اپریل کو آنگ نے مریخ پر ناسا کی ہیلی کاپٹر کی پہلی پرواز کی قیادت کی۔

آنگ نے “انجینوئٹی” کی 39 سیکنڈ کی پرواز کے بارے میں بتایا کہ یہ “ایک حیرت انگیز لمحہ تھا۔” مستقبل کی دریافتوں اور جدت طرازیوں کے امکانات کی وجہ سے اس پرواز کا موازنہ، رائٹ برادرز کی 1903ء میں زمین پر کی جانے والی پہلی پرواز سے کیا جا رہا ہے۔  “آج صبح ہمارا خواب حقیقت بن گیا۔”

“انجینوئٹی” نامی یہ ہیلی کاپٹر 18 مارچ کو مریخ پر پہنچا۔ یہ ہیلی کاپٹر ناسا کے پرسویئرنس روور کے اُس مشن کا حصہ تھا جس کا مقصد مریخ پر قدیم زندگی کے آثار تلاش کرنا اور پتھروں اور تلچھٹ کو مستقبل کے مشنوں کے ذریعے زمین پر بھجوانا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر اپنے مشن میں رائٹ برادرز کے جہاز کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی ساتھ لے کر گیا ہے۔

آنگ 16 برس کی عمر میں ایلانائے یونیورسٹی اربانا، شمپین میں انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے امریکی آئیں۔ اُن کے والدین یونیورسٹی میں آپس میں ملے۔ آنگ امریکہ میں پیدا ہوئیں۔ جب آنگ دو برس کی تھیں تو اُن کی فیملی برما واپس چلی گئیں۔

اُن کی والدہ نے انہیں ریاضی سے محبت کرنا اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سخت محنت کرنا سکھایا۔ اپنے بچپن میں آنگ اپنی والدہ سے ریاضی کے مشکل سوالوں کے جوابات پوچھا کرتی تھیں اور ان کی والدہ کا جواب خود انحصاری اور مصمم ارادے کا کوئی نہ کوئی سبق لیے ہوتا تھا: “مجھ سے مختصر راستے کے بارے میں کبھی بھی نہ پوچھنا۔”

الیکٹریکل انجنیئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، آنگ نے پیسا ڈینا، کیلی فورنیا میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں کام کرنا شروع کیا۔ انہوں نے خلائی جہازوں کے ساتھ مواصلاتی رابطوں کے لیے خلا کی گہرائیوں کے نیٹ ورک پر اور بعد میں آزادانہ پرواز کے  نظاموں پر کام کیا۔

 میمی آنگ اور دو آدمی ایک تجربہ گاہ میں سکرین پر دیکھ رہے ہیں (NASA/JPL-Caltech)
میمی آنگ ٹیڈی زینیٹوس، بائیں اور باب بالارام، دائیں کے ساتھ جنوری 2019 میں ناسا کے مریخ کے ہیلی کاپٹر پر کام کر رہی ہیں۔ (NASA/JPL-Caltech)

ناسا کے مریخ کے ہیلی کاپٹر کے پراجیکٹ کی مینیجر کی حیثیت سے آنگ ایک ایسی متنوع ٹیم کی نگرانی کرتی ہیں جس نے انجینوئٹی کو ڈیزائن کیا، بنایا، اس کی آزمائشی پروازیں کیں اور اسے اڑایا۔ انہوں نے برما میں پرورش پائی اور ٹیم کے دیگر اراکین میں شامل چیف انجنیئر، باب بالارام کا تعلق بنیادی طور بھارت، اور پائلٹ، ہوورڈ گرپ کا بنیادی تعلق ناروے سے ہے۔

اس ٹیم نے پیچیدہ چیلنجوں سے نمٹا۔ اِن پیچیدگیوں کی ایک مثال مریخ کی فضا میں اتنی کم ہوا کا ہونا ہے جس کا  موازنہ آنگ  زمین پر “ہمالیہ کی بلندی سے تین گنا زیادہ بلندی پر موجود ہوا” سے کرتی ہیں۔ اسی لیے انجینوئٹی بہت ہلکا ہے۔ اس کا وزن صرف 1.8 کلوگرام ہے اور اس کے بلیڈ ایک منٹ میں 2,500 سے زائد مرتبہ گھومتے ہیں۔

اس سرخ سیارے کا جائزہ لینے کی خاطر ڈیٹا جمع کرنے اور ہیلی کاپٹر کے مستقبل کے مشنوں کے لیے، آنے والے ہفتوں میں انجینوئٹی مزید کئی پروازیں کرے گا۔

 پتھریلی، بنجر زمین پر کھڑا، کیڑوں سے ملتا چار پتلی ٹانگوں والا جہاز (NASA/JPL-Caltech/ASU)
پرسویئرنس روور کے زوم کیے جا سکنے والے جڑواں کیمروں، ماسٹ کیم-زیڈ کے ذریعے ناسا کے انجنیوئٹی نامی مریخ کے ہیلی کاپٹر کا 5 اپریل کو ایک منظر۔ (NASA/JPL-Caltech/ASU)

ناسا کے قائم مقام منتظم، سٹیفن جی یورچک انجینوئٹی کے مشن کو ممکن بنانے کا سہرا آنگ کی قیادت کے سر باندھتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “اس کو حقیقت کا روپ دینے میں اُن کے جوش و جذبے نے ہر کسی کو متاثر کیا۔”

آنگ کہتی ہیں کہ ناسا کے لیے کام کرنا “ایک اعزاز کی بات اور ایک ایسا زبردست موقع ہے جس کی میں ہر روز قدر کرتی ہوں۔ میانمار کی ایک چھوٹی سے لڑکی ہوتے ہوئے میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی کسی دوسرے ملک میں جاؤں گی چہ جائیکہ ایک ایسی برادری کا حصہ بنوں گی جو متحرک” انداز سے خلا کی تحقیق کر رہی ہے۔