ناسا کی ہبل خلائی دوربین کے لیے تیار کردہ تصویریں لینے کی ٹیکنالوجی نے بحیرہ مردار کے “سکرولز” یعنی لپٹے مسودوں سے متعلق نئے راز آشکار کر دیے ہیں۔
بنیادی طور پر خلائی دوربینوں کے لیے بنائے گئے آلات کے استعمال سے اسرائیلی اور امریکی آثارقدیمہ کے ماہرین نے یہ دریافت کیا ہے کہ خستہ ٹکڑوں پر لکھی وہ تحریریں بھی پڑھی جا سکتی ہیں جنہیں اس سے پہلے دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ اگرچہ عام کیمرے تحریر کا سراغ نہیں لگا سکے تاہم محققین نے خفیہ تحریر سامنے لانے کے لیے ناسا کی کثیرطیفی ٹیکنالوجی اور بعض عمدہ قسم کے فلٹروں سے مدد لی۔

بحیرہ مردار کے مسودوں کی لیبارٹری کی سربراہ، پنینا شور نے روزنامہ دی اسرائیل ٹائمز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ”کثیر طیفی تصویری عمل سے ہمیں وہ کچھ پڑھنے کا موقع ملا جو آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا۔”
سب سے خوشگوار حیرانگی اس بات پر ہے کہ نودریافت شدہ تحریروں میں سے کچھ تحریریں ایسی ہیں جو کسی معلوم مسودے سے نہیں ملتیں۔ یہ بات غیردریافت شدہ متن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ نئے انکشافات آثار قدیمہ سے متعلق اسرائیلی محکمہ مئی میں بحیرہ مردار کے سکرولوں کی دریافت کے 70 سال مکمل ہونے پر منعقد کی جانے والی ایک تقریب کے دوران سامنے لایا۔
بحیرہ مردار کے سکرولوں کے راز

ان مسودوں میں عبرانی انجیل کی باقی رہ جانے والی بعض قدیم ترین تحریریں موجود ہیں جو کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں کے نزدیک مقدس حیثیت رکھتی ہیں۔ ان خزینوں کی دریافتیں بدو چرواہوں اور آثار قدیم کے ماہرین کے ہاتھوں 1940 اور 1950 کی دہائیوں میں عمل میں آئیں اور ان میں شامل قدیم مسودوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ قمران کی غاروں سے دریافت ہونے والے ان سکرولوں اور تحریری ٹکڑوں نے توریت اور انجیل کی تاریخ اور 2000 سال قبل زندگی کے مطالعے میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دی ہے۔

قدیم تحریر کے یہ ناقابل فہم ٹکڑے کئی دہائیوں تک اسرائیلی عجائب گھر میں سگار کے ڈبوں میں گلتے رہے۔ مگر ڈیڑھ سال قبل جب ڈاکٹریٹ کے امریکی طالب علم، اورن ایبل مین نے انہیں محفوظ کرنا شروع کیا تو انہیں ان پر الفاظ دکھائی دیے۔
ایبل مین نے دی ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا، “صفائی ستھرائی اور محفوظ کیے جانے کے بعد بحیرہ مردار کے سکرولوں کے یہ مسودے سکالروں کے زیرمطالعہ ہیں۔ قبل ازیں ان ٹکڑوں کو نہ تو کبھی صاف کیا گیا اور نہ ہی کبھی بہتر حالت میں لایا گیا۔”
ایبل مین کی لیبارٹری نے ناسا کے تیار کردہ کثیر طیفی تصویری آلے تک رسائی حاصل کر رکھی ہے لہذا وہ ان گلے سڑے مسودوں پر لکھے الفاظ پڑھ سکتے ہیں۔
ایبل مین کہتے ہیں، “انہیں یقین نہیں آتا کہ وہ گریجوایٹ طالب علم کی حیثیت سے ایک تاریخی مطالعے کا حصہ ہیں۔ یہ بہت جذباتی بات ہے۔”
ناسا خلائی ٹیکنالوجی کو آسمان سے زمین پر آثار قدیمہ کی لیبارٹریوں سے کسانوں کے کھیتوں تک لے آیا ہے۔