جب ناسا کے انجنیئروں کو مریخ پر چلنے والے “روور” یعنی گاڑی کا نام رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں تخلیقیت کہاں ملے گی اور وہ امریکہ کے بچوں سے رابطہ کرتے ہیں۔
کنڈرگارٹن سے لے کر بارھویں جماعت تک، 28,000 طلبا نے گزشتہ برس مریخ پر اترنے والے روور کے لیے نام جمع کرائے۔ یہ مقابلہ ریاست ورجینیا کے ساتویں جماعت کے طالب علم، ایلکس میدر نے “پرسویئرنس” نام تجویز کرنے پر جیتا۔
مگر اس مقابلے کے سیمی فائنل میں پہنچنے والے 155 بچوں کو بھی روور کے سفر میں مقام حاصل ہوا۔ اب مریخ پر چلنے اور زمین پر تصویریں بھیجنے والے اس روور پر اُن کے نام انتہائی چھوٹے حروف میں کندہ ہیں۔
نام رکھنے کے مقابلے سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم یا سٹیم) میں طلبا کی دلچسپی کو بڑہاتے ہیں۔ جم برڈسٹین نے 2019ء میں جب وہ ناسا کے منتظم تھے کہا، “یہ ایک ایسے روور کے کام میں شریک ہونے کا دلچسپ طریقہ ہے جو ممکنہ طور پر یہاں زمین پر سائنس دانوں کی تحقیق کے لیے مریخ کی سطح سے بنیادی نمونے جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کا کام کر رہا [ہوگا۔]”
پرسویئرنس کا اپنا ایک ٹوئٹر ہینڈل ہے جس کی فہرست میں “فوٹوگرافی، پتھر جمع کرنے، دشوار راستوں پر گاڑی چلانے” کے مشاغل شامل ہیں۔” اور بچے پہلی ٹویٹ کے بھیجے جانے سے بہت پہلے رووروں کی صورت گری کر رہے ہوتے ہیں۔
(1996ء میں بھیجا جانے والا) سوجرنر

“وہ مریخ کے بارے میں حقائق جاننے کے سفر پر ہے۔”
~ ویلری ایمبروائز
ریاست کنیٹی کٹ کے شہر برج پورٹ کی ویلیری ایمبروائز نے جب اس روور کا نام “سوجرنر” رکھا تو اس وقت وہ 12 برس کی تھیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوجرنر کا مطلب تو مسافر ہوتا ہے مگر ایمبروائز نے اس روور کا خاص طور پر اس لیے یہ نام رکھا کیونکہ امریکی خانہ جنگی کے دور میں افریقی نژاد امریکیوں کی غلامی کے خاتمے اور شہری آزادی کے حقوق کی ایک پرزور حامی خاتون کا نام سوجرنر ٹروتھ تھا۔
اُس وقت ایمبروائز نے کہا، “یہ واضح طور پر ایک منطقی بات تھی کہ اس پاتھ فائنڈر کا نام سوجرنر ٹروتھ رکھا جاتا کیونکہ یہ مریخ کے بارے میں سچ تلاش کرنے کے لیے مریخ کا سفر کر رہی تھی۔” ایمبروائز نے کہا کہ اس کے لیے مریخ کے “کٹھن حالات” سے گزرنے کے لیے کسی مضبوط شخصیت کی ضرورت تھی۔
ایمبروائز نے کہا کہ غلامی کے خاتمے کی اس حامی (یعنی سوجرنر ٹروتھ) کو غلام بنایا گیا اور وہ “بہت کٹھن حالات” کے باوجود کامیاب ہوئیں۔
(2003ء میں بھیجے جانے والے) سپرٹ اینڈ اوپرچونٹی

“میں نے چمکدار آسمان کی طرف دیکھا اور … میں نے خواب دیکھا کہ میں وہاں اڑ سکتی ہوں۔”
~ نو سالہ سوفی کولنز
سوفی کولنز نے جب اِن جڑواں روروز کا نام رکھا تو وہ سکاٹس ڈیل، ایریزونا میں تیسری جماعت کی طالبہ تھیں۔
سوفی سائبیریا میں پیدا ہوئیں اور انہیں امریکہ میں گود لیا گیا۔ سوفی مضبوط جذبے کی مالک ہیں اور مواقع سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ انہوں نے ناسا کو بتایا، “میں ایک یتیم خانے میں رہا کرتی تھی۔ وہاں اندھیرا، سردی اور تنہائی ہوا کرتی تھی۔ رات کے وقت میں نے چمکدار آسمان کو دیکھا اور مجھے اچھا لگا۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ امریکہ میں، میں اپنے تمام خوابوں کو حقیقت بنا سکتی ہوں۔”
(2011ء میں بھیجا جانے والا) کیوروسٹی

“سوالات پوچھنے اور جاننے کی خواہش کے تحت … ہم متجسس مسافر بن گئے ہیں۔”
~ 12 سالہ کلارا ما
کلارا ما نے جب کیوروسٹی کا نام رکھا تو وہ ریاست مزوری کے شہر کنسس سٹی میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں۔ ما نے ناسا کو لکھا، “کیوروسٹی ہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں ہماری روزمرہ زندگی میں آگے بڑہاتا ہے۔”
یہ نام اس لیے دلچسپ ہے کیونکہ ما نے بعد میں مانا کہ وہ “بہت زیادہ شرمیلی” تھیں۔ انہوں نے کہا کہ نام رکھنے کا مقابلہ جیتنے نے اُنہیں بدل دیا ہے۔ انہوں نے کہا، “میں اگر اپنے خیالات کا عمدہ طریقے سے اظہار نہ کرتی تو زندگی اس طرح کی نہ ہوتی۔”
ناسا کو یہ بتانے کہ بعد کہ “سوالات پوچھنے اور جاننے کی خواہش کے تحت ہم متجسس مسافر بن گئے ہیں،” ما نے ییل یونیورسٹی سے ارضیاتی طبیعیات میں گریجوایشن اور انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی سے ماحولیاتی پالیسی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
ما نے کہا، “کسی دوسرے سیارے پر روبوٹ بھیجنے کے بارے میں سوچنے نے مجھے یہ احساس دلایا کہ زمیں پر زندگی کتی خاص اور نازک ہے۔ مجھے احساس ہوا کہ زمین کا مطالعہ کرنا وہ اہم ترین کام ہے جو میں کر سکتی ہوں۔”
(2020ء میں بھیجا جانے والا) پرسویئرنس

“ہمیں مریخ کی راہ میں کئی ایک ناکامیاں ہو سکتی ہیں۔ تاہم ہم استقامت سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔”
~ 13 سالہ ایلکس میدر
ایلکس میدر نے جب پرسویئرنس کا نام رکھا تو وہ واشگٹن کے قریب ورجینیا کے مضافات میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ وہ کوئی ایسا نام رکھنا چاہتے تھے جو پہلے روورز کے ناموں کی پیروی کرے۔
انہوں نے ناسا کو لکھا، “مریخ کے ماضی کے تمام روورز کے نام ایسے خصائص ہیں جو ہم میں بحیثیت انسان پائے جاتے ہیں۔ ہم نے اِن میں سے اہم ترین (خصوصیت) کو بھلا دیا۔ استقامت۔”
انہوں نے لکھا، ” ہمیں مریخ کی راہ میں کئی ایک ناکامیاں ہو سکتی ہیں۔ تاہم، ہم استقامت سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔”
الیکس نے کہا کہ اُن میں (خلا کے بارے میں) جاننے کی جستجو تب پیدا ہوئی جب وہ اپنی گیارھویں سالگرہ کے موقع پر ایک خلائی کیمپ میں شامل ہوئے اور انہوں نے سیٹرن راکٹ کا ایک ماڈل دیکھا۔ انہوں نے بتایا، “میں فوراً سمجھ گیا کہ خلا ہی وہ کام ہے جو میں اپنی باقی ماندہ زندگی میں کروں گا۔ میرا سب سے بڑا خواب مریخ پروگرام کا لیڈر بننا ہے۔”