
ناسا اوپر نظر آنے والی ہلکے وزن کی ایک ایسی روبوٹ گاڑی تیار کرنے پر غور کر رہا ہے جس میں پہیوں کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی سلاخوں کو استعمال کیا جائے گا۔ یہ گاڑی وینس سیارے کا انتہائی سخت حالات میں جائزہ لے گی جس کی سطح کا درجہ حرارت 460 ڈگری سنٹی گریڈ تک ہو سکتا ہے۔
اپنے انگریزی نام (ٹینشن ایڈجسٹ ایبل نیٹ ورک فار ڈپلائنگ انٹری ممبرین) کی مناسبت سے مخففاً ٹینڈم کہلانے والی اس روبوٹ گاڑی کا شمار اُن بہت سے ابتدائی تصورات میں ہوتا ہے جن کے لیے یہ خلائی ادارہ “ناسا کے جدید اختراعی تصورات” یا (این آئی اے سی) نامی پروگرام کے لیے مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔
این آئی اے سی پروگرام کو ناسا ایک ایسا پروگرام کہتا ہے جو “بصیرت افروز تصورات کو پروان چڑہاتا ہے اور انقلابی کامیابیوں سے ناسا کے مستقبل کو تبدیل کر سکتا ہے۔ (اس کے نتیجے میں) خلائی تصورات میں یا تو بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے یا کلی طور پر نئے خلائی تصورات سامنے آ سکتے ہیں۔ امریکہ کے اختراع پسندوں اور کاروباری منتظمین کے ساتھ شراکت کاروں کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ہی اس سفر میں (یہ کامیابیاں) حاصل کی جا سکتی ہیں۔”
ناسا کی مدد سے تیار کیے جانے والے مستقبل کے چند ایک مزید منصوبوں کے بارے میں جانیے۔
کچھ منصوبوں میں دوسرے سیاروں کی سطحوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اِن میں وینس کی فضائی حرارت سے چلنے والا پروں والا ہوائی جہاز (بائیں طرف)، اور مشتری کے چاند، یوروپا تک سیارے لے جانے کے لیے جوہری توانائی سے چلنے والی انتہائی ہلکی خلائی تحقیق کرنے والی گاڑی (دائیں طرف) شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ابتدائی مراحل کے جن منصوبوں کی منظوری دی گئی اُن میں مندرجہ ذیل منصوبے شامل ہیں:
- زمین کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے سیاروی سمندروں کی تہوں کا جائزہ لینے کی خاطر روبوٹوں کے لیے ایک طریقہ کار۔
- ستاروں کی روشنی کے ذریعے خلا میں سفر کرنے کا ایک نیا طریقہ۔
- جینیاتی طور پر تیار کی جانے والی حیاتی اکائی جو راکٹ کے لیے ایندھن بنا سکے۔
ناسا کے خلائی ٹکنالوجی کے مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایک منتظم، والٹ انگلُنڈ نے کہا، “ہم نئے تصورات اور یہ دیکھنے کے لیے پرجوش ہیں کہ اضافی وقت اور وسائل تحقیق کو کس طرح آگے بڑہاتے ہیں۔
ایک اور تجویز میں چاند کی تاریک حصے میں ایک بہت بڑے گڑھے میں دوربین لگانے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس سے سائنسدان زمین سے کسی مداخلت کے بغیر کائنات کا مطالعہ کر سکیں گے۔
سپتارشی بندے اوپادھیائے نے اپنے منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ” چاند کے گڑھے میں لگی یہ ریڈیائی دوربین (ایل سی آر ٹی) … فلکیاتی نظام کی سب سے بڑی مگر ایک سادہ سی ریڈیائی دوربین ہوگی!” اس کی مدد سے ” ابتدائی کائنات کے مشاہدے کے ذریعے، کائنات کے شعبے میں اُن زبردست سائنسی دریافتوں کی اہلیت حاصل کی جا سکتی ہے … جنہیں انسانوں نے آج تک تلاش نہیں کیا۔”