امریکی جمہوریت میں ناقابل تنسیخ حق کے نظریے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ لوگوں کا پیدائشی حق ہے اور اسے ان سے کبھی بھی چھینا نہیں جا سکتا۔

مذہبی آزادی بھی ایک ایسا ہی حق ہے۔

وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے مئی میں مذہبی آزادی سے متعلق عالمی رپورٹ کے اجرا کے موقعے پر کہا، ”ہمارے بانیوں نے مذہبی آزادی کو ریاست کی تخلیق نہیں سمجھا بلکہ اسے ہر شخص کے لیے خدائی تحفہ اور خوشحال معاشرے کا بنیادی حق قرار دیا۔”

یہ تصور اس قدر اہم ہے کہ دفتر خارجہ 24 سے لے کر 26 جولائی تک واشنگٹن میں مذہبی آزادی پر پہلا وزارتی اجلاس منعقد کرنے جا رہا ہے جس میں وزرائے خارجہ، مذہبی رہنما، مذہبی حقوق کے متحرک کارکن اور سول سوسائٹی کی شخصیات شرکت کریں گی۔

اس اجلاس کا مقصد نئی راہیں تلاش کرنا ہے۔ پومپیو کے مطابق ”ہم ایذا رسانی کے خاتمے اور تمام لوگوں کی مذہبی آزادی کا بھرپور احترام یقینی بنانے کی غرض سے ٹھوس راہیں تلاش کرنے کے متمنی ہیں۔”

امریکہ میں مذہبی آزادی کو بسا اوقات ‘پہلی آزادی’ کہا جاتا ہے کیونکہ امریکی آئین میں ہونے والی پہلی ترمیم میں یہ پہلی آزادی کے طور پر مذکور ہے۔

Person praying with rosary (© Patrick Semansky/AP Images)
ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کے گرجا گھر میں ایک کیتھولک عبادت گزار تسبیح پکڑے بیٹھا ہے۔ (© Patrick Semansky/AP Images)

‘فریڈم فورم انسٹیٹیوٹ’ کے رچرڈ فولٹن اسے  ناقابل اتنسیخ حق قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”یہ ایسا حق ہے جس پر انسان کے بنائے قوانین کے ذریعے نہ تو کوئی پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے منسوخ کیا جا سکتا ہے۔” مذہبی حقوق کو فطری حقوق، ناقابل تنسیخ حقوق بھی کہا جاتا ہے اور ان کا منبع آزاد لوگوں کی حیثیت سے ہماری فطرت ہے۔

اگرچہ امریکیوں اور دنیا بھر میں دیگر جمہوریتوں کے شہریوں کے بہت سے اہم حقوق ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ‘ناقابل تنسیخ’ نہیں سمجھا جاتا۔ اِن میں عدالتی مقدمے کا حق اور جائیداد کی ملکیت کے حقوق شامل ہیں۔ تاہم ناقابل تنسیخ حقوق سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی حکومت نہ تو یہ حقوق دے سکتی ہے اور نہ ہی انہیں واپس لے سکتی ہے۔ اس کے بجائے ناقابل تنسیخ حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

مذہب کی عالمی آزادی کے بارے میں امریکہ کے خصوصی سفیر سیم براؤن بیک کہتے ہیں، ”بہت سے لوگوں کے لیے مذہبی آزادی کی صورتحال بے حد سنگین ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں تبدیلی لانے کے لیے مل کر کام کرنا ہے۔”

براؤن بیک نے مئی میں مذہبی آزادی کی رپورٹ کے اجرا کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب میں وزیر خارجہ  کے ساتھ مل کر یہ بات کہی، ”ہمارا مقصد تمام لوگوں کے ضمیر کی آزادی کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کا مطلب چین میں مسلمانوں، بدھ مت کے پیروکاروں، فالن گانگ کے اراکین یا عیسائی اور ان کی عبادت  اور زندگی بسر کرنے کی اہلیت  کا تحفظ ہے”