
1979ء میں اسلامی بنیاد پرستوں کے ہاتھوں ایرانی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد دنیا نے دیگر ممالک اور لوگوں، نیز خود ایرانی عوام کے خلاف جارحانہ اقدامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ سفارت کاری اور ممالک کے مابین پرامن تعلقات کی بنیادی علامت یعنی سفارت خانوں پر حملوں سے لے کر یرغمال بنانے، جلاوطن افراد کے قتل اور کھلی دہشت گردی تک ان ملاؤں نے عالمی قانون کا تمسخر اڑایا اور اپنے پیچھے کشت و خون کی لکیر چھوڑے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو کہتے ہیں ”ایران کی بلا اشتعال جارحیت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اسے اب 40 برس ہو چکے ہیں، اس نے اپنے ہی لوگوں، اپنے ہمسایوں اور درحقیقت تہذیب کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کے قتل اور ان پر تشدد سے لے کر لبنان سے عراق تک امریکیوں کے قتل اور آج بھی القاعدہ کو پناہ دینے تک، ایران نے چار دہائیوں سے پُرتشدد طرزِ عمل اپنا رکھا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسے بہت کم نتائج کا بھگتنے پڑے ہیں۔”
ذیل میں اس کی محض چند ایک مثالیں دی جا رہی ہیں:
سفارت خانوں پر دھاوا

عالمی قانون کے مطابق سفارت خانے واجب الاحترام ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میزبان ملک اجازت کے بغیر ان میں داخلے کا حق نہیں رکھتا اور جنیوا کنونشن کے تحت انہیں ”کسی بھی مداخلت یا ضرر پہنچانے کی کوشش کے خلاف ان کا تحفظ کرنا اور سفارتی مشن کی سلامتی میں کسی بھی طرح کے خلل یا اس کے وقار کو نقصان پہنچنے سے روکنا ضروری ہے۔”
1979 کے انقلاب کے فوری بعد ایرانی بنیاد پرستوں نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور 52 امریکیوں کو 444 دن تک یرغمال بنائے رکھا۔ ملاؤں کی حکومت نے یہ سب کچھ کرنے میں مدد دی حتیٰ کہ آج بھی لوگوں کو یرغمال بنانے والے یہ لوگ ایرانی حکومت میں ذمہ دار عہدوں پر فائز ہیں۔
اسی طرح بغداد میں امریکی سفارت خانے پر 31 دسمبر کے حملے کے پیچھے ایرانی حکومت کا ہاتھ تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی اس حملے کا سب سے بڑا منصوبہ ساز تھا۔ عراق میں ایرانی پشت پناہی میں سرگرم ملیشیاؤں کے رہنماؤں کی صورت میں اس کے پٹھو لوگوں کے ہجوم کو سفارت خانے کے سامنے لے گئے اور حملے کی حوصلہ افزائی کی۔
یرغمال بنانا
ایرانی حکومت کی جانب سے یرغمال بنائے جانے کا عمل سفارت خانوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ 1979 کے یرغمالی بحران سے لے کر اب تک ایرانی حکومت نے رقم وصول کرنے یا دیگر حکومتوں سے ان کی حکمت عملی کے ضمن میں رعایات لینے کے لیے لوگوں کو سودے بازی کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایران میں کام، حصول تعلیم یا اہل خانہ سے ملنے کے لیے جانے والے غیرملکی، یرغمالی بنانے کی کارروائیوں کا اکثر نشانہ بنتے ہیں۔

ایرانی نژاد امریکی تاجر سیامک نمازی اور ایرانی نژاد برطانوی امدادی کارکن نازنین زغری ریٹکلف جیسے دہری شہریت کے حامل افراد ایرانی حکومت کے غضب کا نشانہ خاص طور پر بنتے ہیں۔ ایف بی آئی کے ریٹائرڈ ایجنٹ رابرٹ لیونسن 12 برس سے زیادہ عرصے سے ایران میں لاپتہ ہیں۔” انصاف کے لیے صلے کا پروگرام” لیونسن کی محفوظ واپسی میں مدد گار معلومات کی فراہمی کے بدلے میں دو کروڑ ڈالر تک کے انعام کی پیشکش کی گئی ہے۔
جلاوطنی میں رہنے والے افراد کا قتل
ایرانی حکومت بیرون ملک اپنے ہی شہریوں کو قتل کرتی ہے اور یہ مجرمانہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
بعض اوقات یہ اہداف جلاوطن سابق وزیراعظم شاہ پور بختیار جیسی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں جنہیں 6 اگست 1991 کو پیرس کے نواح میں ان کے گھر میں قتل کیا گیا تھا۔ اسی طرح 13 جولائی 1989 کو ایک ایرانی کرد کو ویانا میں قتل کیا گیا جو کہ ایرانی حکومت کا مخالف تھا۔ 20 فروری 1996 کو استنبول میں ایرانی حزب مخالف کی شخصیت کا قتل بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ یہ ہلاکتیں سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں ہیں۔ لکھاری اور دیگر دانشور بھی ایرانی حکومت کے پسندیدہ اہداف ہیں۔
دہشت گردی کی سرپرستی

ایران میں ملاؤں کی حکومت اپنے لیے مجرمانہ سرگرمیاں انجام دینے والی اپنی آلہ کار فورسز کی آڑ میں رہتے ہوئے بدستور دنیا میں ریاستی سطح پر دہشت گردی کی سب سے بڑی معاون بنی ہوئی ہے۔ اس معاملے میں حزب اللہ بڑی نمایاں ہے۔ جون 1985 میں اس نے ایتھنز میں ‘ٹی ڈبلیو اے’ کی پرواز 487 پر جانے والے طیارے کو اغوا کیا۔ دسمبر 1985 اور جون 1986 کے درمیان پیرس میں حزب اللہ کی جانب سے کیے گئے بم دھماکوں میں 12 افراد ہلاک اور مزید 200 زخمی ہوئے۔
18 جولائی 1994 کو ایرانی حکومت نے حزب اللہ کے ایک خودکش بمبار کی معاونت کی جس نے دھماکہ خیز مواد سے بھری وین کو بیونس آئرس میں ”ارجنٹائن جیوش میوچل ایڈ سوسائٹی” کی عمارت سے ٹکرایا۔ اس دھماکے میں ایک پانچ سالہ بچے سمیت 85 افراد ہلاک اور 300 زخمی ہوئے تھے۔
جولائی 2012 میں بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں حکام نے ایک ایرانی کارندے کو گرفتار کیا جو ایک یہودی عبادت خانے کی نگرانی کر رہا تھا۔
جب پومپیو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ ایران کو” ایک عام ملک جیسا طرزِعمل اپنانے پر قائل کرنے” کا خواہاں ہے تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایران کو یہ کارروائیاں روک دینی چاہئیں۔