تازہ ترین: 12 دسمبر کو پوری ریاست وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ریاست میں کامیابی کی دوبارہ تصدیق ہو گئی۔ دوبارہ گنتی سے یہ بات سامنے آئی کہ انہیں اپنی قریب ترین حریف ہلری کلنٹن کے مقابلے میں تقریباً23,000 کی برتری حاصل ہے۔
بیشتر امریکی انتخابات کا اختتام واضح نتیجے پر ہوتا ہے۔ جیتنے والا عام طور سے انتخاب کے چند ہفتوں بعد اپنا عہدہ سنبھال لیتا ہے، اور ہارنے والے اگلی انتخابی مہم کی تیاری کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔
لیکن کبھی کبھار انتخابات اس وقت تک ختم نہیں ہوتے جب تک ووٹ دوبارہ نہ گِن لیے جائیں۔ اگر پہلی گنتی میں جیتنے اور ہارنے والے امیدواروں کے درمیان فرق واقعتاً بہت کم ہو یا کوئی امیدوار دوبارہ گنتی کی درخواست دیدے تو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل خود بخود حرکت میں آ سکتا ہے۔ چونکہ ہر ریاست اپنے انتخابی قوانین خود بناتی ہے، اس لیے ریاستوں کے انتخابی قوانین مختلف ہوتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سمیت 43 ریاستوں میں ہارنے والے امیدوار کو دوبارہ گنتی کی درخواست دینے کی اجازت ہے۔ 17 ریاستوں میں، کوئی ووٹر بھی دوبارہ گنتی کی درخواست دے سکتا ہے۔
اخراجات کون اٹھاتا ہے؟
دوبارہ گنتی پر پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ بہت سی ریاستوں میں اخراجات کی ادائیگی کے فیصلے کا انحصار پہلی گنتی میں جیتنے اور ہارنے والوں کے درمیان ووٹوں کے فرق پر ہوتا ہے۔ بیس ریاستوں میں ٹیکس دہندگان کے خرچے پر دوبارہ گنتی خود بخود شروع کردی جاتی ہے اگر انتخاب جیتنے والے امیدوار اور دوبارہ گنتی کی درخواست دینے والے امیدوار کے ووٹوں کے درمیان فرق بہت کم ہو۔ بالعموم یہ فرق ڈالے گئے ووٹوں کے 0.5 فیصد اور 1 فیصد کے برابر ہوتا ہے۔
اگر ووٹوں کے درمیان فرق اتنا کم نہ ہو، تو پھر دوبارہ گنتی کی درخواست دینے والے امیدوار یا ووٹر کو اخراجات برداشت کرنا ہوتے ہیں۔
خبروں میں
حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں صدارتی امیدوار جِل سٹائن نے جنہیں ریاست وسکانسن میں 1.1 فیصد ووٹ ملے ہیں دوبارہ گنتی کی درخواست دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو 47.9 ووٹ ملے۔ چونکہ ٹرمپ کو ملنے والے ووٹوں اور سٹائن کو ملنے والے ووٹوں کے درمیان فرق ریاست کے مقررکردہ 0.25 فیصد سے زیادہ ہے، اس لیے سٹائن کی انتخابی مہم کو دوبارہ گنتی کے اندازاً 35 لاکھ ڈالر کے اخراجات ادا کرنا ہوں گے۔
وسکانسن الیکشن کمیشن کے عبوری ایڈمنسٹریٹر، مائیکل ہاس نے، اخبار وال سٹریٹ جرنل کو بتایا، “اگر درخواست قانونی تقاضے پوری کرتی ہے … تو کمیشن کو دوبارہ گنتی کا حکم جاری کرنا ہوگا۔”
یہ طریقہ کیسے کام کرتا ہے
جب کوئی امیدوار یا ووٹر دوبارہ گنتی کی درخواست دیتا/دیتی ہے، تو درخواست میں یہ دعویٰ کیا جانا چاہیے کہ جب شروع میں گنتی کی گئی تھی اس وقت یا تو کوئی غلطی ہوئی ہے یا دھوکہ دہی سے کام لیا گیا ہے۔ ایسے علاقوں میں جہاں ووٹنگ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں وہاں سرکاری عہدے دار مشین میں کسی گڑبڑ یا خرابی کا پتہ چلانے کے لیے ہر مشین کا معائنہ کرتے ہیں۔ جہاں بیلٹ پیپر استعمال کیا جاتا ہے، وہاں انتخابی عہدے دار اصل بیلٹ پیپروں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ جہاں ووٹر کمپیوٹر کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالتے ہیں، وہاں ہر ووٹ کے ریکارڈ کو ایک رسید کی شکل میں پرنٹ کر کے دیکھا جاتا ہے۔
کیا نتیجہ تبدیل ہو سکتا ہے؟
کیا دوبارہ گنتی سے انتخاب کے نتائج تبدیل ہو جاتے ہیں؟ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ امریکہ میں ووٹنگ میں دھوکہ دہی بہت ہی کم ہوتی ہے اور انسانی بھول چوک بھی اتنی عام نہیں۔
دوبارہ گنتی کی صورت میں کسی بھی صدارتی انتخاب کا نتیجہ نہیں بدلا۔ تاہم دوبارہ گنتی سے سینیٹ اور گورنروں کے انتخابی مقابلوں میں فرق پڑتا رہا ہے۔ 2008ء میں منی سوٹا کے اس وقت کے سینیٹر نارم کولمین کو اپنے حریف ایل فرینکن کے مقابلے میں 206 ووٹ زیادہ ملے تھے۔ ایک ماہ تک ہونے والی دوبارہ گنتی کے بعد فرینکن کو 312 ووٹوں کی اکثریت سے فاتح قرار دے دیا گیا۔
سٹاف رائٹر لی ہارٹمین نے اس مضمون کی تیاری میں ہاتھ بٹایا۔