نسل، تنوع اور پولیس کے موضوعات پر امریکہ میں پولیس کے تین سربراہوں کا اظہار خیال
شئیر امریکہ نے تین امریکی شہروں کی پولیس کے سربراہوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔ اس کا مقصد عام پائے جانے والے اس تاثر پر بات کرنا تھا کہ امریکی پولیس قانون کے نفاذ میں نا انصافی سے کام لیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننا تھا کہ ان کے شہر اپنی کمیونٹیوں کے حالات کو بہتر بنانے میں پولیس کے کردار کو یقینی بنانے کی خاطر کیا کر رہے ہیں۔
کیا امریکی پولیس سفید اور سیاہ فام امریکیوں کے لیے الگ الگ معیار اپناتی ہے؟
’’لوگ ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سارے معاملے کا تعلق محض گولیاں چلانے اور کاروں ک اتعاقب کرنے سے ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے 90 فیصد کا تعلق ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرنے سے ہے ۔‘‘ ــــــــــــ سی ایٹل کی پولیس چیف کیتھلین او ٹوُل
سی ایٹل کی چیف کیتھلین او ٹوُل:
ہمیں اس ملک کی تاریخ کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ بہت سے علاقوں میں لوگوں کے ساتھ ایک بہت ہی طویل عرصے تک مختلف سلوک کیا جاتا رہا۔ ہمارے ہاں امریکہ بھر میں، پولیس کے 18,000 محکمے ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ٹوسان، ایریزونا کے چیف کِرس میگنوس:
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پولیس کے ساتھ کیسا تجربہ ہوا اور اس کے بارے میں کیا تصور باندھا گیا — خاص طور پر سیاہ فام کمیونٹی کی جانب سے — ہم اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ ہمارا ماضی ایک مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ ہم حقیقت میں ملک بھر میں پولیس کے چھوٹے اور بڑے محکموں میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں کہ ہم جن لوگوں کو ملازم رکھیں، وہ انہی کمیونٹیوں کی نمائندگی کرتے ہوں جہاں وہ رہتے ہیں اور بہت سے حالات میں ہم یہ بھی یقینی بناتے ہیں کہ وہ انہی کمیونٹیوں میں پلے بڑھے ہوں۔ بعض صورتوں میں ہم انہیں واپس انہی علاقوں میں بھیج رہے ہیں ، جہاں وہ رہتے یا کام کرتے رہے ہیں۔ یقیناً اس سے بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔
بوسٹن کے پولیس کمشنر، ولیم ایوانز:
بوسٹن میں، 60 اور 70 کے عشروں کے دوران نسل کا معاملہ ایک مسئلہ بنا رہا۔ ہم نے سخت محنت کی ہے۔ میں اپنا بہت زیادہ وقت دفتر سے باہر گزارتا ہوں۔ میں نے اس سال گرمی کے موسم میں غالباً 40 امن ریلیوں میں شرکت کی ہے۔ میرے خیال میں یہاں پولیس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ بیشتر لوگ ہمارے کام کو سمجھتے اور سراہتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس آپ خواہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں، لوگوں کا ایک چھوٹا سا ایسا طبقہ آپ کو ہمیشہ ملے گا جس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جن پر حقیقت میں ہم کام کر رہے ہیں اور ان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے، فی الوقت یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔

کیا امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں بلا جواز ہلاکتوں کی وبا پھوٹ پڑی ہے؟
اوٹوُل: پولیس کو ہر سال جتنے مقابلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں ایسے واقعات کی تعداد بہت ہی معمولی ہوتی ہے جن کا انجام برا ہوتا ہے۔ تاہم ایسا ایک واقعہ بھی بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اعداد و شمار اس تاثر کی صریحاً نفی کرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں آج کے دور کے سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کے باعث پیغام کے اس گھوڑے کو پَر لگ جاتے ہیں اور یہ ہوا میں اڑنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں گھوڑے کو واپس اصطبل میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایوانز:
“میرے خیال میں ہمارے سپاہی اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انہیں ہرکوئی ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ 2011ء میں ہمیں گرفتاریوں کے دوران تشدد کی 78 شکایات مو صول ہوئی تھیں۔ پچھلے سال ہمیں ایسی 16 شکایتیں ملیں۔” ـــــــ بوسٹن کے پولیس کمشنر ولیم ایوانز
اس سال ہمارے ہاں گولیاں چلنے کا ایک واقعہ ہوا اور ہم اب 10 ویں مہینے میں ہیں۔ گزشتہ 15 برسوں کے دوران ہمارے ہاں ایسے واقعات کی اوسط تعداد سال میں ایک رہی ہے۔ اور ہم ایک بڑے شہر کی پولیس کا محکمہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اچھے پولیس افسر انتہائی تحمل سے کام لیتے ہیں۔
میگنوس: ہوسکتا ہے کہ ایسا کوئی تاثر موجود ہو [خاص طر پر دوسرے ممالک میں جہاں امریکی پولیس کو ایسے دیکھا جاتا ہے جیسا کہ اسے فلموں میں پیش کیا جاتا ہے] کہ پولیس والے کسی بھی لمحے اورکسی بھی طرح کے حالات میں اپنی بندوقوں کواستعمال کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ اگر آپ طاقت کے استعمال سے بچنے کے لیے پولیس والوں کو مزید وسائل فراہم کردیں، بالخصوص جان لیوا اسلحے کے استعمال سے بچنے کے، تو وہ اس سے استفادہ کرنا چاہیں گے۔