نسلی تعصب کے الزام میں زیر تفتیش بالٹی مور کی پولیس کا تبدیلیاں لانے کا وعدہ

سرگرم کارکنوں سے خطاب کرنے کے لیے یونیورسٹی آف بالٹی مور میں داخل ہو رہی ہیں۔ (© AP Images)

10 اگست کو جاری کی گئی ایک وفاقی رپورٹ کے بعد امریکہ کے محکمہِ انصاف اور بالٹی مور کے محکمہ پولیس نے پولیس میں اصلاحات کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔ اس رپورٹ میں پولیس افسروں پر ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کرنے اور سیاہ فام باشندوں کے ساتھ بالعموم امتیازی سلوک روا رکھنے پر تنقید کی گئی ہے۔

ملک کے سب سے بڑے پولیس محکموں میں شمار ہونے والے بالٹی مور کے محکمہِ پولیس کے بارے میں یہ رپورٹ ایک سال کی تفتیش کے بعد جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس افسروں نے ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو بغیر کسی معقول وجہ کے روکا جن میں سے بیشتر سیاہ فام  بستیوں کے رہائشی تھے۔ پولیس افسروں نے اس وقت غیر قانونی طور پر شہریوں کو گرفتار کیا، جب انہیں “کسی فرد کی کہی ہوئی کوئی بات اچھی نہ لگی۔”

بالٹی مور کے پولیس کمشنر کیون ڈیوس نے کہا کہ اس سال سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب پائے جانے والے چھ افسروں کو برطرف کیا جا چکا ہے۔

ڈیوس نے کہا، ” جرائم کی روک تھام اورکمیونٹی کے ساتھ زیادہ با احترام رشتہ  قائم  رکھنا ایک دوسرے کی باہمی ضد نہیں ہیں۔ ہم ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور نہیں ہیں۔ بلکہ ہم ان دونوں کو اپنا رہے ہیں۔ ہم 2016 میں  رہ رہے ہیں۔”

کمشنر اور بالٹی مور کی میئر سٹیفنی رالنگز بلیک، دونوں نے وعدہ کیا کہ اس رپورٹ سے دور رس تبدیلیوں کے ایک تفصیلی خاکے کے طور پر کام لیا جائے گا۔

عدالتی حکم نامے کے تحت ان ہدایات کا نفاذ پولیس کے ادارے کو مجبور کرے گا کہ وہ قانونی مقدمات سے بچنے کے لیے اپنے ضوابط کو بہتر بنائے۔ محکمۂ انصاف کے شہری حقوق کی سربراہ ونیتا گپتا نے کہا کہ امکان یہی ہے کہ اس عدالتی حکم کو حتمی شکل دینے میں ابھی کئے مہینے لگیں گے۔

محکمۂ انصاف نے اسی قسم کی دور رس تفتیشی کارروائیاں، دوسرے شہروں کے علاوہ، شکاگو، کلیو لینڈ،  ریاست نیو میکسیکو کے شہر البقرقی اور ریاست مزوری کے شہر فرگسن کی پولیس کے بارے میں بھی کی ہیں۔

وفاقی تفتیش کاروں نے بالٹی مور کے شہریوں، پولیس افسروں، سرکاری وکیلوں، وکلائے صفائی اور منتخب عہدے داروں کو انٹرویو کرنے میں ایک سال سے زیادہ وقت صرف کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ڈیوٹی دینے والے افسروں کے ساتھ پولیس کی گاڑیوں میں سفر کیا، اور کاغذات اور شکایات کی جانچ پڑتال کی۔

انیتا گپتا نے کہا، “ہم سے جس نے بھی بات  کی، تقریباً سب نے یہی کہا کہ بالٹی مور کے محکمۂ پولیس میں مستقل نوعیت کی اصلاحات ضروری ہیں۔”

ریاست کی طرف سے مقرر کی گئی شہر کی سب سے اعلٰی سرکاری وکیل کی حیثیت سے، اٹارنی مارلین موسبی کا کہنا ہے کہ انہیں یہی توقع تھی کہ یہ رپورٹ “ان تمام چیزوں کی تصدیق کرے گی جو ہمارے شہر میں رہنے والے بہت سے لوگ پہلے سے ہی جانتے ہیں یا جنہیں اس کا ذاتی تجربہ ہو چکا ہے۔”

انھوں نے ایک بیان میں کہا، “اگرچہ بالٹی مورسٹی کے پولیس افسران کی ایک بڑی تعداد اچھے افسروں پر مشتمل ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ برے افسر بھی موجود ہیں اور پولیس کا محکمہ ان پر عمومی طور پر نظر رکھنے، انہیں تربیت دینے یا برے لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہا ہے۔”

اس وفاقی تفتیش کا آغاز اپریل 2015 میں ایک 25 سالہ سیاہ فام امریکی، فریڈی گرے کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ فریڈی گرے کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی جب کہ اس کے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور پیروں میں بیڑیاں تھیں۔ اس کے باوجود اسے پولیس کی گاڑی کے پچھلے حصے میں کسی چیز سے باندھے بغیر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کی ہلاکت پر بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اور شہر میں اتنے شدید فسادات پھوٹ پڑے جوکئی عشروں میں بدترین تھے۔

گرے کی ہلاکت کا مقدمہ، تین سفید فام اور تین سیاہ فام پولیس افسروں پر قائم کیا گیا تھا۔ ان میں سے تین بری کر دیے گئے، ایک کا مقدمہ ناقص کارروائی کی وجہ سے ختم ہو گیا، اور بقیہ تین افسروں کے خلاف الزامات واپس لے لیے گئے تھے۔