صدر بائیڈن نے نسلی امتیاز کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر 21 مارچ کو کہا، “بنیادی اقدار اور عقائد میں سے ایک چیز جسے ہمیں بحیثیت امریکی ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے وہ نفرت اور نسل پرستی کے خلاف یہ تسلیم کرنے کے باوجود کھڑا ہونا ہے کہ نظاماتی نسل پرستی اور سفید فام بالادستی ایسے گندے زہر ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصے سے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
1907 کے بیلنگہیم فسادات نے ثابت کیا کہ نسل پرستی کس طرح تارکین وطن کمیونٹیوں کے بارے میں خطرناک خوف کا باعث بن سکتی ہے۔
4 ستمبر 1907 کو 500 آدمیوں پر مشتمل ہجوم ریاست واشنگٹن کے شہر بیلنگہیم میں اچانک داخل ہوا اور شہر کی جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کمیونٹی کو نشانہ بنایا۔ ہجوم میں شامل لوگوں کا خیال تھا کہ بیلنگہیم کی دن بدن بڑھتی ہوئی نقل مکانی کرنے والی پنجابی کمیونٹی کی وجہ سے جنگلات سے لائی گئی لکڑی کی مقامی ملوں میں ملازمتیں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ اس کمیونٹی کے لوگ شمال مغربی بحرالکاہل کے اس شہر میں زیادہ آمدنی اور بہتر زندگی کی تلاش میں آئے تھے۔
اس ہجوم میں سفید فاموں کی اکثریت تھی۔ انہوں نے جنوبی ایشیائی کارکنوں کی تلاش کے دوران شہر میں توڑ پھوڑ کی۔ ان کارکنوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی انڈیا کے دوآبہ کے علاقے سے تھا۔ ہجوم نے مزدوروں کو بیلنگہیم کے سٹی ہال کے تہہ خانے میں زبردستی بند کر دیا۔ شہر کی پولیس نے دعوی کیا کہ کارکنوں کو تہہ خانے میں ان کی سلامتی کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔ 200 مزدور اور ان کے اہل خانہ ایک رات اس تہہ خانے میں رہے اور اگلے دن وہاں سے نکل سکے۔
اگرچہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر نقل مکانی کر کے آنے والوں کو مارا پیٹا گیا اور وہ زخمی ہوئے۔ دو ہفتوں سے بھی کم عرصے کے اندر اس جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے تمام لوگ نئی ملازمتوں اور سلامتی کی تلاش میں بیلنگہیم چھوڑ کر چلے گئے۔
بیلنگہیم کے رہنے والے اس واقعے کو شہر کے تاریک ترین واقعات میں سے ایک واقعے کے طور پر یاد رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2007 میں اس وقت کے میئر ٹِم ڈگلس نے بلووں کی 100 ویں برسی کے موقعے پر 4 ستمبر کو شفا اور مصالحت کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
اس اعلان (پی ڈی ایف، 46.4 کے بی) کے مطابق شفا اور مفاہمت کا دن “ہمارے خاندانوں، کمیونٹیوں، گرجا گھروں اور حکومت کے اندر ایک مثبت، اجتماعی شفا یابی اور مصالحت کی تحریک کے طور پر منانے اور خود کو اور دوسروں کو ہماری حکومتی پالیسیوں کی اُس اجتماعی تاریخ کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے منایا گیا جس نے مقامی کمیونٹیوں اور دیگر نسلی گروہوں کو متاثر کیا۔”
ایک دہائی سے تھوڑا سا زیادہ، 2018 میں بیلنگہیم سٹی نے موجودہ شہر کے سٹی ہال کے باہر شفا اور مصالحت کا ایک محراب تعمیر کیا تاکہ ان تارکین وطن کو یاد رکھا جاسکے جنہیں انیسویں صدی کے آخر میں وقفوں وقفوں کے بعد ان کے گھروں سے نکالا گیا تھا۔ محراب کی تختی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: “شفا اور مفاہمت۔”
Uzma and I were privileged to be part of the Arch of Healing and Reconciliation ceremony this morning. The Arch, a symbol for a more inclusive and equitable future, represents our shared responsibility to promote humanity in our community. pic.twitter.com/zmlJamSRhs
— Sabah Randhawa (@WWUPresRandhawa) April 21, 2018
یادگار کی نقاب کشائی کے موقع پر ویسٹرن واشنگٹن یونیورسٹی کی صدر صباح رندھاوا نے خطاب کیا۔ انہوں نے روشن تر اور زیادہ شمولیت والے مستقبل کی سمت میں کام کرتے ہوئے ایک دردناک ماضی کا اعتراف کرنے کی خاطر کمیونٹی کی حیثیت سے متحدہ ہونے کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے کہا، “آئیے ہم اس بات کو مانیں کہ اس خطے میں ہزاروں سال کی مقامی ثقافت کے پس منظر کے حوالے سےعملی طور پر ہم سب تارکین وطن ہیں۔”