نسوانی ختنے کے خلاف گیمبیا کی ایک خاتون کی جدوجہد

جاہا ڈوکورے دو براعظموں میں لڑکیوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان میں ایک افریقہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئیں اور دوسرا شمالی امریکہ جہاں وہ امریکی شہری بنیں۔ امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد ہونے والی ڈوکورے کا کہنا ہے کہ ان کا سفر تو محض ابھی شروع ہی ہوا ہے۔

اُن کے کام کی توجہ ایک ایسی رسم کے خاتمے پر مرکوز ہے جس میں غیرطبی وجوہات کی بنیادوں پر خواتین کے جنسی اعضا کی قطع و برید کی جاتی ہے۔ اسے نسوانی ختنہ یا ‘ایف جی ایم’ بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں طبی طور پر سنگین مسائل بشمول انفیکشن، بانجھ پن حتیٰ کہ موت کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔

ڈوکورے خود بھی اس اس عمل سے گزر چکی ہیں۔ انہوں نے اٹلانٹا میں ‘ہینڈز فار گرلز’ کے نام سے ایک غیرمنفعتی ادارہ قائم کیا ہے جو اس عمل کی روک تھام اور اس کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کرتا ہے۔ افریقی ملک دی گیمبیا میں ڈوکورے کے کام کی بدولت سابق صدر یحیٰی جامع نے 2015 میں اس متنازع رسم پر پابندی لگائی جس کی وجہ سے 2018 میں ڈوکورے کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔

‘ایف جی ایم’ 29 ممالک میں عام ہے جن میں بیشتر کا تعلق افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہے۔ تاہم دنیا کے دیگر حصوں میں جا بسنے والے ان ممالک کے لوگ بھی اس رسم پر عمل کرتے ہیں اور ان میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 20 کروڑ عورتیں اور لڑکیاں اس عمل کا شکار ہو چکی ہیں۔

Uniformed schoolgirls walking down a rural dirt road (© Siegfried Modola/Reuters)
نسوانی ختنہ یا ‘ایف جی ایم’ جیسی تکلیف دہ رسومات کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک سماجی تقریب میں شرکت کی خاطر طالبات، 21 اپریل 2016 کو کینیا کے شہر امبیریکانی میں لڑکیوں کے ہائی سکول کی طرف جا رہی ہیں۔ (© Siegfried Modola/Reuters)

ڈوکورے کو نوعمری میں پتہ چلا کہ وہ ایک ہفتے کی عمر میں اس عمل سے گزر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں سمجھتی ہوں کہ یہ جان کر مجھے غصہ آیا۔ میرے پاس کہنے کو الفاظ نہیں تھے کیونکہ میں سمجھ نہیں سکتی کہ کوئی ایسا کام کیوں کرے گا۔”

15 برس کی عمر میں جب وہ نیویارک میں رہ رہی تھیں تو ان کے خاندان نے ان کی شادی ان سے کہیں بڑی عمر کے ایک شخص سے طے کردی۔ مگرانہوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ وہ نیویارک ہی میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں چلی گئیں اور وہیں ہائی سکول کی تعلیم مکمل کی۔ وہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اٹلانٹا چلی آئیں اور انہوں نے 2013 میں اپنا ادارہ کھولنے سے پہلے کسی دوسرے شخص سے شادی کر لی۔ بیٹی کی پیدائش نے ڈوکورے کو اپنے غصے کو مثبت سرگرمی میں بدلنے کی تحریک دی۔ ڈوکورے گیمبیا واپس لوٹ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں نہیں چاہتی تھی کہ میری بیٹی بھی ایسے حالات کا سامنا کرے جن سے میں خود گزر چکی ہوں۔”

ڈوکورے کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے والی ناروے کی سیاست دان، جیٹی کرسچینسن کہتی ہیں کہ ڈوکورے کی جدوجہد کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ انہوں نے دی گیمبیا میں اس رسم کو غیرقانونی قرار دلوانے میں مدد دی۔ کرسچینسن نے ناروے کے اخبار برگنزآویسن کو بتایا، “وہ [ڈوکورے] اس امر کا زندہ ثبوت ہیں کہ کسی ایک شخص کا یقین کسی ایک شخص کے  دنیا کو تبدیل کرنے کا کیسے باعث بن سکتا ہے۔”

یہ مضمون فری لانس مصنف، لینور  ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا اور  اسے ابتدا میں 20 مارچ 2018  کو شائع کیا گیا۔