ڈیزری کورمیے سمتھ کو حال ہی میں امریکہ کے محکمہ خارجہ میں نسلی مساوات اور انصاف کی نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ اس عہدے پر تعینات ہونے والی پہلی فرد کی حیثیت سے وہ دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کو یہ بتانے کے لیے تیار ہیں کہ وہ کیا کام کرتی ہیں اور نسلی مساوات کا امریکی خارجہ پالیسی سے کیا تعلق ہے۔
جیسا کہ کورمیے سمتھ نے بتایا کہ اُن کی منصبی ذمہ داریوں کے دو پہلو ہیں۔ پہلا: (آبائی گروپوں سمیت) پسماندہ نسلی اور طبقاتی برادریوں کے معاشی، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کو دنیا بھر میں فروغ دینا، اور دوسرا: نسل پرستی، امتیازی سلوک، اور غیرملکیوں کے خلاف تعصب کا مقابلہ کرنا۔
پسماندہ نسلی اور گروہی کمیونٹیوں کے لوگوں کو حکومت اور دیگر شعبوں کے بارے میں فیصلہ سازی کے عمل سے اکثر باہر رکھا جاتا ہے۔ اس رویے کو تبدیل کرنے میں مدد کرنے کے لیے کرومیے سمتھ جب اپنے نئے منصب کے حوالے سے بیرونی ممالک کا سفر کرتی ہیں تو وہ عوامی سطح پر سرگرم کارکنوں کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ “کسی بھی دوسرے شخص کے مقابلے میں اِن کمیونٹیوں کے لوگوں کو اُن مسائل کا زیادہ علم ہوتا ہے جن سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔” میرا کام ان کی بات توجہ سے سننا “اور اُن فیصلوں میں اِن کی شمولیت کو فروغ دینا ہے جو اُن کی زندگیوں کی صورت گری کرتے ہیں۔” تاہم “میرا کام دوسری حکومتوں کو پسماندہ کمیونٹیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اُن کے سلوک پر لیکچر دینا یا مذمت کرنا نہیں ہے۔” گو کہ امریکہ عملی مثال کے ذریعے قیادت کرنے پر یقین رکھتا ہے مگر “میں یہ بات مانتی ہوں کہ ہم کلی طور پر کامل نہیں ہیں اور ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے۔ میں دوسرے ممالک کے بہترین طریقوں کے بارے میں سن کر اور بدلے میں اپنے بہترین طریقے اُن کو بتا کر خوش ہوتی ہوں۔”
کرومیے سمتھ کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی پسماندہ گروہوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کر کے جمہوریتوں کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ”میں ‘اقلیت’ کی اصطلاح استعمال نہیں کرتی کیونکہ بعض جگہوں پرعددی لحاط سے اس گروہ کی اکثریت ہوتی ہے۔”
ورثے کو لے کر آگے چلنا
کرومیے سمتھ کے نزدیک نسلی انصاف اور مساوات کو فروغ دینا محض ایک کام نہیں بلکہ یہ ان کے خون میں شامل ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ “میرے دادا [ہفت روزہ اخبار لاس اینجلیس سینٹینل کے کالم نگار، لیری آبری] شہری حقوق کے مشہور فعال رکن اور مصنف تھے۔ بچپن میں وہ جس سکول میں گئے وہاں مختلف رنگ ونسل کے بچے اکٹھے پڑھتے تھے اور انہیں سکول کے باہر احتجاج کرنے والے ناراض سفید فام والدین کو دیکھنا یاد تھا۔
اگرچہ اُن کے دادا لاس اینجلیس میں اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں “مقامی طور پر” نسلی انصاف پر “بہت زیادہ توجہ دیا” کرتے تھے، تاہم اُنہوں نے بذات خود ایک مختلف انداز اپنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ”مجھے بخوبی احساس تھا کہ مجھے سٹینفورڈ یونیورسٹی [جہاں سے انہوں نے اپنی انڈرگریجویٹ ڈگری حاصل کی]، ہارورڈ یونیورسٹی [جہاں سے انہوں نے ماسٹر ڈگری حاصل کی] اور محکمہ خارجہ جیسے اداروں تک رسائی حاصل کرنے کے حیرت انگیز مواقع ملے۔” یہ تمام ادارے نسلی عدم مساوات سے نمٹنے کے لے عالمی نقطہ نظر کو پروان چڑہاتے ہیں۔
اُن کی میکسیکو اور جنوبی افریقہ میں گزشتہ سفارتی تعیناتیاں بھی نسلی انصاف اور مساوات کو فروغ دینے کے بارے میں اُن کے پیشہ ورانہ احساس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ بیرون ملک اور ملک کے اندر، دونوں جگہوں پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ “ہر قسم کی عدم مساوات سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔” اُن میں پائی جانے والیں بیروزگاری، کووڈ-19 عالمی وبا، غذائی عدم سلامتی اور جمہوری تنزلی کی شرحیں اس کی چند ایک مثالیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ” ہم اپنے شہروں میں اُن مسائل سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جنہیں ہم بیرونی ممالک میں ترقیاتی مسائل کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
کرومیے سمتھ کے مطابق دنیا بھر میں مساوات کو فروغ دینا محکمہ خارجہ کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ یہ کام ایک نیا تصور ہے اور پوری دنیا کے پسماندہ طبقات کے معاشرتی مسائل کےغیرمتناست اثرات کا اعتراف بہت پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔ وہ چاہتی ہیں کہ اِن کے محکمہ خارجہ کے رفقائے کار یہ سمجھیں کہ دنیا بھر کی خواتین اور لڑکیوں کی طرح، پسماندہ نسلی اور گروہی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی عالمگیرعدم مساوات سے شدید طور پرمتاثر ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ “یہ کام کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ درحقیقت اس سے مجھ میں جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے اور مجھے توانائی ملتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میری باتیں فرسودہ لگیں مگر اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے اور اپنے دادا کی میراث کو لے کر آگے چلنے کا میرا یہی طریقہ ہے۔”