نظام شمسی کے قریب ترین ہمسایہ سیارے کی دریافت

زمین جیسے کسی ایسے سیارے کی جستجو میں جہاں زندگی کا وجود ہو، کائنات کے وسیع حصوں کو کھنگالنے کے بعد، ماہرینِ فلکیات کوعین اپنے پڑوس میں ایک سیارہ مل گیا۔

سائنس دانوں نے 24 اگست کو اظلاع دی کہ زمین جیسی چٹانوں والا اور زمین سے تھوڑا سا بڑا ایک ایسا سیارہ دریافت ہوا ہے جو ہمارے شمسی نظام کے سب سے قریب واقع،  پروکسیما سینٹوری  نامی ستارے کے گرد گردش کررہا ہے۔

اس سیارے کو  پروکسیما بی  کا نام دیا  گیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس سیارے تک خلا باز کے بغیرایک چھوٹے سے خلائی  تحقیقی سیارچے کے ذریعے اس صدی کے آخر تک پہنچا جا سکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کچھ ایسے لوگ بھی اِسے دیکھ سکیں گے جو آج زندہ ہیں۔

یہ نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ  سرد، اُس خطے میں  ہے جسے  “گولڈی لاک زون “ کہا جاتا ہے اور جہاں ممکن ہے پانی  —  جو کہ زندگی کی کلید ہے  —   موجود ہو۔ اور یہ زمین سے محض 4.22  نوری برسوں کی دوری یا تقریباً 40 کھرب کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

This artist’s impression shows the planet Proxima b orbiting the red dwarf star Proxima Centauri, the closest star to the Solar System. The double star Alpha Centauri AB also appears in the image between the planet and Proxima itself. Proxima b is a little more massive than the Earth and orbits in the habitable zone around Proxima Centauri, where the temperature is suitable for liquid water to exist on its surface.
ایک آرٹسٹ کے تصور کے مطابق، پروکسیما بی سیارہ، (دائیں جانب) ہمارے نظام شمسی کے قریب ترین پروکسیما سینٹوری نامی ہمسائے کے گرد گردش کرتے ہوئے۔ (European Southern Observatory/ M. Kornmesser)

گو کہ زمین اور اس سیارے کی اہم خصوصیات میں مماثلت پائے جانے کا امکان ہے، مگر پھر بھی اس کے بہت زیادہ اجنبی ہونے کا غالب امکان ہے۔ یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد زمین اور سورج کے درمیانی فاصلے کے بیسویں حصے  کے برابر فاصلے پر گردش کرتا ہے۔ اس کے آسمان کا رنگ کسی نیلاہٹ کے بغیر ناقابل یقین حد تک نارنجی ہو گا اور ہمیشہ غروب آفتاب کا منظر پیش کرے گا۔ یہ سیارہ اپنے ستارے کے گرد اتنی تیزی سے گردش کر رہا ہے کہ اس کا سال تقریباً 11 دن کا ہوتا ہے۔

کیا سٹار شاٹ کا وقت آگیا؟

اس سال کے شروع میں سٹیفن ہاکنگز اور مارک زکربرگ سمیت، سائنس دانوں اور بزنس لیڈروں نے بریک تھرُو سٹار شاٹ نامی ایک پراجیکٹ کا اعلان کیا تھا جس  کے تحت روشنی سے چلنے والے ایسے سینکڑوں چھوٹے اور کم وزن تحقیقی سیا رچے خلا میں چھوڑے جائیں گے جو روشنی کی رفتار کے پانچویں حصے کی رفتار سے سفر کریں گے اور زمین پر تصویریں بھیجیں گے۔

اس پراجیکٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ناسا کے ایک چوٹی کے سابق عہدے دار، پِیٹ ورڈن کا کہنا ہے کہ پروکسیما بی کو اس پراجیکٹ میں  شامل ہونا چا ہیے۔ سٹار شاٹ کا آغاز 2016 میں کرنے کا منصوبہ ہے۔

لندن کی کوئین میری یونیورسٹی میں فلکیاتی طبعیات کے ایک ماہر اور سیارے کی دریافت کے بارے میں ایک مطالعے کے مصنفین کے سربراہ گوئیلم اینگلادا ایسکیودے، اس بارے میں بےحد خوش ہیں۔

’’ہمارے ہاتھ  ایک خزانہ لگ گیا ہے۔‘‘