نقشوں کی اہمیت اور سفارت کاروں کے کام آنے والا جغرافیہ دان

نقشے محکمہ خارجہ کے جغرافیہ دان، لی شوارٹز کو تب سے اچھے لگتے ہیں جب وہ تیرہ چودہ برس کے تھے۔

13 برس کی عمر میں انہوں نے امریکہ کی سیر کے ایک منصوبے میں اپنے گھر والوں کی مدد کی۔ اس سیر کے دوران انہوں نے امریکہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر کیا۔ وہ نیویارک سے یوسیمٹی نیشنل پارک، گرینڈ کینیئن، برائس کینیئن اور دیگر مقامات پر گئے۔ مارکر کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اس وقت موجود نقشوں پر لائنیں لگا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا راستہ ایسے طریقے سے بتایا جس میں سڑکوں کی حالت، ٹریفک اور سفر کے وقت کو مدنظر رکھا گیا تھا۔

شوارٹز بتاتے ہیں، “ہمیں یہ جاننا تھا کہ ہم ایک ماہ میں کیا کچھ کرسکتے ہیں اور مخصوص جگہوں پرکب پہنچیں گے، کیونکہ اگر آپ زی اون نیشنل پارک میں 28 جون کو نہیں پہنچیں گے تو کیمپ میں آپ کے لیے مخصوص کردہ جگہ ہاتھ سے نکل جائے گی۔”

“میں حقیقی معنوں میں نقشوں سے محبت کرتا تھا۔ نقشے  اپنی خوبصورتی سے بڑھکر، آپ کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔”

— لی شوارٹز، جغرافیہ دان، امریکی محکمہ خارجہ

سیر کی خاطر  اُس سفر کے لیے انہوں نے جو کام کیا وہ اُس کام سے زیادہ مختلف نہیں ہے جو کام وہ اور اُن کی ٹیم “جغرافیہ دان اور عالمی مسائل” کے دفتر میں آج کر رہے ہیں۔ وہ چیک پوسٹوں اور پہاڑوں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال امدادی کارکنوں کے لیے ایسے راستوں کا پتہ چلانا ہوتا ہے جن کی تصادم کا سامنا کرنے والے کسی ملک میں امدادی خوراک کا سامان پہنچانے کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔

محکمہ خارجہ کے جغرافیہ دان کی حیثیت سے، شوارٹز کی یہ قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دیکھیں کہ امریکی حکومت کے نقشوں پر بین الاقوامی سرحدیں کیسے دکھائی گئی ہیں۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ نقشے امریکی پالیسی سے مطابقت رکھتے ہوں۔ شوارٹز امریکی حکومت کے اداروں کے لیے سرحدی پالیسی میں راہنمائی بھی کرتے ہیں اور محکمہ خارجہ کے جغرافیہ دان اور عالمی مسائل کے دفتر میں تیار کردہ ہر ایک نقشے کی حقیقی معنوں میں منظوری دیتے ہیں۔ (یہ دفتر محکمہ خارجہ کے انٹیلی جنس اور تحقیق کے 75 سالہ پرانے بیورو کا حصہ ہے۔)

 جنوبی سوڈان کا نقشہ جس میں سوڈان اور ہمسایہ ممالک دکھائے گئے ہیں (State Dept.)
(State Dept.)

اس دفتر کے بہت سے نقشے اُن سفارتی کوششوں کو مضبوط بناتے ہیں جن کا تعلق ہنگامی امداد، ماحولیاتی مسائل، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، سرحدی تنازعات، تصادم میں کمی اور حتٰی کہ اقوام متحدہ کی امن کی کاروائیوں تک سے ہوتا ہے۔ اس دفتر میں تیار کیے جانے والے نقشوں میں جغرافیائی معلومات کے نظام (جی آئی ایس) کے سافٹ ویئر اور تصاویر کے تجزیات کو آپس میں جوڑا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بہت سے ایسے موضوعات پر تجزیات اور مذاکرات میں مدد کرنا ہوتا ہے جن میں لڑائیوں کے نتیجے میں لوگوں کا بے گھر ہونا، موسمی تبدیلی کے متغیرات، بحیرہ جنوبی چین میں کیے جانے والے سمندری دعوے، جنوبی سوڈان میں انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد تک رسائی، قرن افریقہ میں معدنیات کے تنازعات اور آرکٹک میں براعظمی پلیٹ کی حدود جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔

شوارٹز کہتے ہیں، “ابتدا ہی سے، میں حقیقی معنوں میں نقشوں سے محبت کرتا تھا۔ نقشے  اپنی خوبصورتی سے بڑھکر آپ کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔”

جغرافیائی معلومات کے یونٹ میں نقشہ نویسی اور سرحدی تجزیوں کے ماہرین کام کرتے ہیں اور وہ دفتر کے زیادہ تر خفیہ اور غیرخفیہ نقشے تیار کرتے ہیں۔ جبکہ انسانی معلومات کے یونٹ کے غیرخفیہ “تصویری خاکے” امریکی حکومت کے اور اس کی شراکت دار حکومتوں اور تنظیموں میں عالمی نوعیت کی ہنگامی صورتوں میں کام کرنے والوں کے لیے بنائے جاتے ہیں۔

حال ہی کے نقشوں اور تصویری خاکوں میں چاڈ جھیل کے بیسن کا تنازعہ، شام اور وینزویلا میں لوگوں کی بے گھری، اور کووڈ-19 کے سلسلے میں انخلا کی منصوبہ بندی جیسے موضوعات شامل ہیں۔ گزشتہ برس دونوں یونٹوں نے امریکی حکومت کے کاموں میں مدد کے لیے 500 کے قریب نقشے تیار کیے۔

شوارٹز اپنی ٹیم کے بعض اُن منصوبوں کی بات کرتے ہیں جن کی وجہ سے امریکی حکومت حرکت میں آئی۔

صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے دور میں اس دفتر نے ایک تفتیش کی جس کے تحت دارفوری پناہ گزینوں کے یہ ثابت کرنے  کے لیے انٹرویو کیے گئے اور نقشوں اور تصاویر کے تجزیوں کو آپس میں جوڑا گیا کہ سوڈان میں دارفوری مردوں، عورتوں اور بچوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتیں کی  گئیں ہیں۔ منظم طور پر کی جانے والی اِن ہلاکتوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کام کے نتیجے میں اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاول اس نتیجے پر پہنچے کہ سوڈان میں نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد جنگی جرائم کے مرتکب کئی ایک ملزموں کو مجرم ثابت کرنے میں مدد ملی۔

حال ہی میں جمہوریت، انسانی حقوق اور محنت کے بیورو کی درخواست پر جغرافیہ دان کے دفتر نے ایک فیلڈ سروے تیار کیا اور اس کی نگرانی کی۔ اس سروے میں برما سے بے دخل کیے جانے والے روہنگیا پناہ گزینوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دستاویزی شکل دی گئی۔ سروے کی بنیاد پر انٹیلی جنس اور تحقیق کے بیورو کے دوسرے تجزیہ کاروں کے ساتھ مل کر، جغرافیہ دان کے دفتر نے ایک رپورٹ تیار کی جس کی اشاعت سے قبل اس کے مندرجات کا برمی حکومت کے ساتھ تبادلہ کیا گیا۔

 چین اور بھارت کے مغربی سیکٹر کا سرحدی نقشہ (State Dept.)
(State Dept.)

جغرافیہ دان کے طور پر گزشتہ 15 برس سے کام کرنے والے شوارٹز کی زیرنگرانی انگنت نقشے تیار کیے جا چکے ہیں۔ ملکوں کے درمیان پائے جانے والی علاقائی تنازعات کے حل میں مدد کرنے کی خاطر اُن کی ٹیم نے سرحدی نقشوں کی تیاری پر بھی کام کیا۔ اِن میں ایتھوپیا اور اریٹیریا کے درمیان سرحد اور دنیا کے تازہ ترین آزاد ہونے والے ملک، جنوبی سوڈان اور سوڈان کے درمیان سرحد بھی شامل ہے۔

شوارٹز بتاتے ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں اُن کی ٹیم چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور محکمہ خارجہ کے پالیسی سازوں کے لیے دونوں ممالک کی سرحد کے ساتھ متنازعہ علاقوں کے بارے میں ایک مختصر سے معلوماتی کتابچے پر کام کر رہی ہے۔ یہ ٹیم لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر  ہونے والے واقعات کے بارے میں جاننے کے لیے سیاروں سے لی جانے والی تصاویر استعمال کرتی ہے۔

شوارٹز نے اس وقت سے لے کر اب تک ایک طویل سفر طے کیا ہے جب اُن کے گھرانے کو کیمپنگ کے لیے جگہ مخصوص کرنے کی ضرورت پڑی تھی۔ اُن کی نقشی نویسی اب بھی اہم ہے، بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔