
1970 کی دہائی میں کوسٹرلِٹز اور ڈیوڈ تھولیس نے یہ ثابت کیا کہ عام توقعات کے برعکس دو جہتی اشیا میں سے بجلی بغیر مزاحمت کے گزر سکتی ہے۔ یہ خاصیت سپر کنڈکٹیویٹی یا کلی موصلیت کہلاتی ہے۔
ہم اس کے بارے میں شاید زیادہ نہ سوچتے ہوں مگر ہم میں سے بہت سے لوگ صرف تین جہتوں والی دنیا سے ہی واقف ہیں: یعنی ہم دائیں یا بائیں، اوپر یا نیچے، آگے یا پیچھے حرکت کر سکتے ہیں۔ مگراس طرح کی دنیا میں دو جہتوں والے مادے کا کیا بنے گا ؟
روایتی سوچ کے مطابق تو غالباً یہ بات کوئی زیادہ دلچسپی کی حامل نہیں۔ تاہم رہوڈ آئی لینڈ کی براوًن یونیورسٹی کے کوسٹرلٹز، واشنگٹن یونیورسٹی کے تھولیس اور نیوجرسی کی پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈنکن ہالڈین نے ہر ایک کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ انہوں نے غیر معمولی اشیا کی ایسی خصوصیات کو تلاش کیا اور اُن کی وضاحت کی جو اتنی پتلی ہوتی ہیں کہ ان کو دو یا ایک جہت کی اشیا تصور کیا جا سکتا ہے۔
اُن کے کام کا مستقبل کی الیکٹرانکس اور کوانٹم کمپیوٹر کے سامان پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔
اسی وجہ سے سویڈن کی سائنس کی شاہی اکیڈیمی نے ان تینوں کو طبیعیات میں 2016 کا نوبیل انعام دیا ہے –
کوسٹرلٹز اپنی 20 پچیس سال کی عمر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کی “مکمل لاعلمی” مسلمہ سائنس کو چیلنج کرنے کا ایک بہت بڑی مثبت وجہ تھی۔ وہ کہتے ہیں، “میرے ذہن میں پہلے سے طے شدہ خیالات نہیں تھے۔ نئے تصورات کا سامنا کرنے کے لیے میرا نوجوان اور احمق ہونا ہی کافی تھا۔”
ہالڈین نے اس سے اتفاق کیا۔ “آپ جب ان تصورات کو سمجھ لیتے ہیں تو آپ کو خوش قستی سے یہ ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ کوئی بہت ہی دلچسپ چیز لگ گئی ہے۔”
یہ مضمون ShareAmerica کی کاوشوں سے تیار کیا گیا۔