نوبیل انعام یافتہ لڑکی کی مذہبی آزادی کے لیے جدوجہد (ویڈیو)

2018 کا مشترکہ نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی نادیہ مراد نے عراق میں داعش کے ہاتھوں جس درندگی کا سامنا کیا اسے انہوں نے مذہبی آزادی اور خواتین کے حقوق کی عالمگیر مہم میں بدل دیا ہے۔

2014 میں شمالی عراق میں نادیہ مراد کے گاؤں’ کوچو’ پر داعش نے یلغار کی۔ جنگجوؤں نے نادیہ کے خاندان کے لوگوں سمیت سینکڑوں مردوں اور عورتوں کو قتل کیا اور نوجوان عورتوں کو عراق اور شام میں غلاموں کی منڈی میں فروخت کر دیا۔ ان میں  نادیہ بھی شامل تھیں۔

عراقی خطے سنجار میں داعش کے اس اور ایسے دیگر حملوں کا واضح مقصد عراق میں چار سے پانچ لاکھ کے درمیان بسنے والے یزیدیوں کا خاتمہ تھا۔ نادیہ نے بتایا، ”یزیدی داعش کا خاص ہدف تھے۔”  وہ کہتے تھے، “یہ ایک قدیم کافر قوم ہے اور ہمیں اس کا خاتمہ کرنا ہے۔”

Woman standing among soldiers (© Alkis Konstantinidis/Reuters)
داعش کے چنگل سے رہائی پانے والی یزیدی لڑکی اور انسانی بیوپار سے متاثرہ افراد کے وقار کے لیے اقوام متحدہ کی خیرسگالی سفیر نادیہ مراد یکم جون 2017 کو عراق میں سنجار کے قریب کُرد پیشمرگہ جنگجوؤں کا خیرمقدم کر رہی ہیں۔ (© Alkis Konstantinidis/Reuters)

نادیہ مراد کو موصل شہر میں قید کیا گیا اور اغوا کاروں نے انہیں جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ کئی ماہ تک ان کی قید میں رہنے کے بعد وہ ایک خاندان کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئیں جس نے انہیں داعش کے زیرقبضہ علاقے سے باہر پہنچایا۔ نادیہ نے داعش کی قید سے فرار ہونے کے بعد یزیدیوں کی حالت زار پر دلیرانہ انداز میں توجہ دلائی۔

5 اکتوبر کو انہیں اجتماعی جنسی زیادتی کے جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال بند کرانے کے لیے کیے گئے کام پر کانگو کے ڈاکٹر ڈینس مکویج کے ساتھ مشترکہ طور پر امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

انہوں نے دسمبر 2015 میں ایک ترجمان کے ذریعے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا، ”جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا جس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں کی زندگی تباہ کرنا اور یہ یقینی بنانا تھا کہ یہ عورتیں دوبارہ معمول کی زندگی کی طرف کبھی بھی نہ لوٹ سکیں۔”

نادیہ مراد نے جولائی 2018 میں دفتر خارجہ کے زیر اہتمام مذہبی آزادی پر پہلے وزارتی اجلاس میں شرکت کی جہاں انہوں نے عالمی برادری سے درخواست کی کہ وہ یزیدیوں کو ”اپنے مذہب پر آزادانہ طور سے عمل کرنے اور اپنے عقائد کو خاتمے سے بچانے” میں مدد  کرے۔

دنیا بھر میں لوگوں کی مذہبی آزادی کے لیے جدوجہد امریکہ کی ترجیح ہے۔ مذہبی آزادی پر ہونے والے اجلاس میں نائب صدر پینس نے کہا، ”امریکہ کل بھی مذہبی آزادی کے لیے کھڑا تھا، آج بھی کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔”