سائنس اور ٹکنالوجی سے متعلقہ پیشوں میں پوری دنیا میں عورتوں کی نمائندگی کم ہے۔ ایک امریکی سفارت خانے نے اسے تبدیل کرنے کے لیے یورپی اور امریکی لڑکیوں کو گوگل؛ الفابیٹ اِنک کا ڈیجیثتل اِنک سروس ڈویژن؛ ایک کمپیوٹر ڈیٹا کمپنی، انٹیل کارپوریشن؛ اور امریکہ کے خلائی ادارے ناسا جیسی تنظیموں سے سیکھنے کے لیے اکٹھا کیا۔
لڑکیوں نے بیک وقت ماہرین کی راہنمائی میں سائنسی تجربات اور کمپیوٹر کوڈ لکھنا سیکھتے ہوئے، قائدانہ مہارتیں بھی حاصل کیں۔

اس کیمپ کو “سائنس کے شعبے میں عورتیں / لڑکیوں کے سٹیم کیمپ” کا نام دیا گیا۔ سٹیم اپنے سائنس، ٹکنالوجی، انجنیئرنگ، آرٹس، اور ریاضی کے انگریزی ناموں کے پہلے حروف کا مخفف ہے۔ یورپی یونین میں منعقد کیا جانے والا اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیمپ تھا۔
اس کیمپ میں ایستونیا، جارجیا، لاتویا، پولینڈ اور امریکہ کے ثانوی سکولوں کی 100 طالبات نے شرکت کی۔ اس کی راہنمائی ‘گرل اپ’ نامی اقوام متحدہ کی صنفی برابری کو فروغ دینے والی فاؤنڈیشن کے زیرِقیادت چلنے والے ایک ترقیاتی پروگرام نے کی جب کہ اس کی میزبانی تالین، ایستونیا میں امریکی سفارت خانے نے کی۔
یورپی یونین کے مطابق اس کے 18 ملین سائنس دانوں اور انجنیئروں کی مجموعی تعداد کا 41 فیصد عورتوں پر مشتمل ہے۔ ہو سکتا ہے دو ہفتوں کا یہ پروگرام اس تعداد میں خفیف سا اضافہ کر سکے کیونکہ کیمپ سے 100 لڑکیاں سٹیم کے شعبوں کے بارے میں بہت سی امنگیں لیے اپنے گھروں کو واپس لوٹی ہیں۔

مسائل کے ایسے قابل عمل حلوں کے بارے میں تجاویز دینے کے لیے لڑکیوں نے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں کام کیا جن سے اِن کی کمیونٹیوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ گرل اپ کی پروگراموں کی ڈائریکٹر بیلی لیوشن نے کہا، “یہ دیکھنا کہ اس وقت کیا ہوتا ہے حقیقت میں ایک حیرت انگیز چیز ہے” جب مختلف پسہائے منظر رکھنے والی لڑکیاں سائنس اور ٹکنالوجی کے کسی ایک پراجیکٹ پر مل کر کام کرتی ہیں۔
کیمپ میں شامل ایک لڑکی ایلیز بیتھ برگمین نے کہا کہ کیمپ نے نہ صرف انہیں بیش قیمت تعلیم فراہم کی بلکہ ایک ایسی دوستیاں بھی پروان چڑھائیں جس کی انہیں پوری عمر قائم رہنے کی توقع ہے۔

لاتویا میں سال اول کی طالبہ برگمین سرجن بننا چاہتی ہیں اور زندگی بچانے والی کوئی ٹکنالوجی ایجاد کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا، “اس شعبے میں عورتوں کے غیر مساوی حقوق کے بارے میں مجھے تعلیم ملی،” مگر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ” اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کڑی محنت جاری رکھنے کا مجھے حوصلہ ملا۔”