مصر میں نوجوان کاروباری نظامت کار کامیابی سے نئے کاروبار شروع کر رہے ہیں اور انہیں بین الاقوامی سطح پر وسعت بھی دے رہے ہیں۔
جب دعا عارف کا 2016ء میں کینسر کا علاج ہو رہا تھا تو انہیں قاہرہ میں نسخوں کے مطابق اپنی دواؤں کی درست خوراکیں حاصل کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
انہوں نے ایک ایسے موبائل ایپ کی ضرورت محسوس کی جس کے ذریعے مریض قریب ترین دواخانوں سے اپنی دوائیں حاصل کر سکتے پیں۔
عارف اور ان کی دوست بچوں کی ماہر ڈاکٹر رشا راضی نے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے کام کرنے والا “فلیٹ6 لیبز” نامی کاروباری ایکسلریٹر (کاروبار شروع کرنے میں فوری مدد کرنے والے ادارے) سے مالی اعانت کی درخواست دی۔ اس امداد کی مدد سے ان دونوں نے شفا کے نام سے اپنا ایک موبائل ایپ شروع کیا۔

اس ایپ سے مصر میں ہزاروں لوگوں کو مدد مل رہی ہے۔ عارف اور راضی کا اس ایپ کو مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں متعارف کروانے کا پروگرام ہے۔ شفاء عربی زبان کا دواؤں کے بارے میں عوام کو آگاہی دینے والا اولین بلاگ ہے اور لائسنس یافتہ ماہرینِ ادویات کی مدد کرتا ہے۔
حبہ عاصم اور ثمر عاصم کا ایک مشترکہ خواب ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ افریقی نوجوانوں کو با اختیار بنایا جائے تاکہ وہ اپنے ملکوں میں اس غربت کو ختم کرسکیں جو بے روزگاری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ 2019ء میں شروع کیے جانے والے “دا گرؤتھ فارمولا پروگرام” کے تحت نوجوان پیشہ ور افراد کی تعلیم اور تجربے کے ذریعے روزگار کی مارکیٹ کے لیے تیار ہونے میں مدد کی جاتی ہے۔
حبہ عاصم کاروباری نظامت کار ہیں اور انہیں 17 برس کا تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں آن لائن تعلیم کے ذریعے “سرٹیفکیشنز” لیں۔ وہ نوجوان کاروباری افراد کے لیے کاروباری سرپرستوں کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ “روزگار کی منڈی میں معیشت کے لیے درکار مہارتوں کو متعارف کرا کر افریقی نوجوانوں (کی کامیابیوں) اور اقتصادی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتی ہیں تاکہ ہمارا براعظم 2030ء تک مطلوبہ اقتصادی منازل تک پہنچ سکے۔”

کووڈ-19 وبا بھی دا گرؤتھ فارمولے کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکی۔ گزشتہ برس اس پروگرام کے تحت 27,000 نوجوان طلبا و طالبات اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور افراد کو آن لائن تربیت دی گئی۔ عربی اور انگریزی زبانوں میں پیش کیے جانے والے اس پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی تربیت کے نتیجے میں مصر میں 120 نئی کمپنیاں شروع کی گئیں۔
وہ کہتی ہیں، ہم نے اتنی تعداد تک پہنچنے کے لیے مصر کے 17 صوبوں کے ساتھ ساتھ زمبابوے، جنوبی افریقہ، یوگنڈا اور کویت میں بھی ڈیجیٹل اور مارکیٹنگ کی مہارتیں متعارف کرائیں۔ ہم انتہائی پرامید ہیں کہ مزید شراکت کاروں اور مدد کے ذریعے ہم افریقہ میں دس لاکھ ڈیجیٹل گرووں کا ہدف پورا کر سکیں گے۔”
ریحام عادل نے 2000ء میں مصر کے شہر سکندریہ میں “جاب نائل” کے نام سے بھرتی اور ہیومن ریسروسز کی ایک کمپنی قائم کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے 2012ء کے “بین الاقوامی مہمانوں کے قیادت کے پروگرام” (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی وجہ سے عادل کو ترقی کرنے اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ نیٹ ورکنگ کا موقع ملا۔ اس پروگرام کا عنوان تھا: ایک نیا آغاز: کاروباری نظامت کاری اور کاروباری جدت طرازی۔
آئی وی ایل پی میں اپنی شرکت کے بعد عادل نے آئی وی ایل پی کی ایک ساتھی کی مدد سے اپنی کمپنی کو ہالے، جرمنی تک پھیلا دیا۔
ان کی کمپنی جاب نائل قاہرہ میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ بھی کام کرتی ہے اور سفارت خانے کے ساتھ مل کر ہر سال ایک “جاب فیئر” (ملازمتوں سے متعلق ایک میلہ) منعقد کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مقامی کمیونٹی کو ملازمتوں کے ہزاروں مواقعوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔
عادل نے میریڈیئن انٹرنیشنل سنٹر کی کاروبار میں عورتوں کے عنوان سے ہونے والی ایک کانفرنس کو بتایا کہ “آپ کی با اختیاری آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے۔”
اپنی ایک سہیلی ایڈریئن پامر سے عادل کی ملاقات آئی ویل ایل پی کے ایک پروگرام میں ہوئی۔ کورونا کی وبا کے بعد مقامی اور بین الاقوامی سطح پر عورتوں کی قیادت کو فروغ دینے کے مقصد سے پامر کے ساتھ مل کر عادل نے اگست 2020 میں “گلوبل ویمن لیڈرز سرکل” (جی ڈبلیو ایل سی) کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کی اراکین میں آئی وی ایل پی کی سابقہ شرکاء اور مراکش، نمیبیا، ہیٹی، کوسٹا ریکا، بھارت، پاپوا نیو گنی، برما، بولیویا، مصر، اردن، سوئٹزرلینڈ، پولینڈ اور جارجیا کی خواتین رہنما شامل ہیں۔
عادل کہتی ہیں، “جی ڈبلیو ایل سی میں ہم خواتین رہنماؤں کا ایک ایسا زبردست نیٹ ورک بنا رہے ہیں جو اپنے اپنے شعبوں اور کمیونٹیوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں اور جو ایک دوسرے کو با اختیار بنا سکتی ہیں۔”