
جب مینا اور زینا نصیری پرائمری سکول میں تھیں تو انہوں نے مسلمان عورتوں کی تاریخ کے بارے میں اپنی کلاس کا ایک پراجیکٹ کرنا چاہا تو انہیں ابتدا میں ہی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
زینا نے بتایا، “ہم اپنے سکول کی لائبریری میں گئیں تو ہمیں مسلمان خواتین کے بارے میں کوئی بھی کتاب نہ ملی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہمیں احساس ہوا کہ ہماری کمیونٹی میں کتابوں کے معاملے میں تنوع اور نمائندگی کی کمی ہے۔”
دونوں بہنوں نے جو اب ثانوی سکول میں گیارھویں اور بارھویں کلاس میں پڑھتی ہیں، ‘ والدین اور اساتذہ کی ایسوسی ایشن’ سے رابطہ کیا اور مشی گن میں اپنے سکول کے حلقے کی تمام لائبریریوں کے لیے مسلمان خواتین کے بارے میں کتابیں خریدنے کے لیے رقم مانگی۔
ایسوسی ایشن اُن کے مدد کرنے پر راضی ہوگئی اور اس کی مالی مدد سے مینا اور زینا نے تمام 21 سکولوں کے لیے کتابیں خریدیں اور ہر سکول کو 200 کتابیں بطور عطیہ دیں۔

اس کامیابی کے بعد انہوں نے کامیاب مسلمان خواتین کے بارے میں کتابیں تلاش کرنے اور اپنے علاقے کے سکولوں کو بطور عطیہ دینے کے لیے گرلز آف دا کریسنٹ (دخترانِ ہلال) کے نام سے ایک غیرسرکاری تنظیم بنائی۔
اِن دونوں بہنوں کے علم میں یہ بات آئی کہ اِن کتابوں کی نہ صرف اُن کی کمیونٹی میں مانگ ہے بلکہ پورے امریکہ اور دنیا میں بھی اِن کی مانگ پائی جاتی ہے۔ آج تک، اُن کی تنظیم امریکہ میں 66 سکولوں، عوامی لائبریریوں اور مسجدوں کو ایک ہزار سے زائد کتابوں کا عطیہ دینے کے علاوہ فرانس، ہانگ کانگ، مراکش، نائجیریا، اور برطانیہ سمیت سات بین الاقوامی مقامات پر بھی کتابیں بطور عطیہ دے چکی ہے۔
مینا اور زینا نے آن لائن سائٹوں پر تلاش کرنے کے بعد، بااثر خواتین کی نمائندگی کرنے والی 300 کتابوں کی فہرست مرتب کی اور دلچسپی رکھنے والوں کو یا تو یہ کتابیں بطور عطیہ دیں یا انہیں حاصل کرنے کی سفارش کی۔
زینا کو کتابوں کی تلاش کے دوران آج کل کا مشہور ناول “دا لائن وی کراس” (حدود جو ہم عبور کرتے/تی ہیں) ملا۔ اس ناول کی مصنفہ راندا عبدلفتح ہیں۔ اس کتاب میں ایک ایسی نوجوان مسلمان خاتون کے تجربات کا جائزہ لیا گیا ہے جو افغانستان سے منتقل ہو کر امریکہ آ ن بسی ہے۔
مینا نے اسے فوراً ہی پڑھ ڈالا۔ مینا نے بتایا، “کسی کتاب میں اپنے جیسا ہی کوئی کردار دیکھنا بہت حیران کن تجربہ تھا۔ یہ ہمیں واپس چوتھی جماعت کےاُس زمانے میں لے گیا جب ہمیں مسلمان عورتوں کے بارے میں کوئی کتاب نہیں ملتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ مسئلہ ہر جگہ پایا جا تا ہے۔”
لوگوں کا ردعمل بے انتہا مثبت ہے۔ مینا اور زینا کہتی ہیں کہ انگریزی نصاب میں پڑھنے والی کتابوں کی فہرست تیار کرنے کے لیے وہ امریکہ کے سرکاری سکولوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ اس فہرست میں وہ بہت سی کتابیں شامل ہیں جو انہوں نے تلاش کی ہیں اور انہیں امید ہے کہ یہ تحریک امریکی مسلمانوں کی کمیونٹی کے علاوہ دوسری کمیونٹیوں میں پھیلے گی۔
مینا کہتی ہیں کہ نمائندگی کا فقدان صرف مسلمان عورتوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ آبائی امریکیوں، معذوریوں کے حامل افراد، اور دیگر گروپوں کا بھی مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا، “ہم چاہتی ہیں کہ سب لوگ اپنے آپ کو کتابوں کے آئینے میں دیکھیں۔ لیکن مسلمان عورتوں کی حیثیت سے ہم دوسروں کی طرف سے بات کرنے کا اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتیں۔ لہذا ہم دوسرے نوجوان لوگوں کی اسی طرح کے پراجیکٹ شروع کرنے لیے سرپرستی کرنا اور انہیں سکھانا چاہتی ہیں۔”