جب امریکی 3 نومبر کو پولنگ سٹیشنوں پر جوق در جوق پہنچیں گے تو صدارتی انتخاب ہی بڑی دلچسپی ہوگی۔ مگر امریکہ میں انتخاب کا دن ووٹروں کو اور بہت سے امور میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع بھی دے گا۔
وفاقی، ریاستی اور مقامی سطح پر لیڈروں کا انتخاب کیا جائے گا۔ اور بیلٹ [ووٹ کی پرچیوں] کے ایک ایسے پروگرام کے تحت پالیسیوں سے متعلق فیصلوں پر براہ راست ووٹنگ ہوگی جس کے ذریعے بہت سی ریاستوں میں رہنے والے شہری ایسے سوالوں کے فیصلے کریں گے جو ان کی روز مرہ زندگی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
صدر منتخب کرنے کے علاوہ
اس سال وفاقی سطح پر ووٹر امریکی صدر، امریکی سینیٹ کے 35 ممبران اور امریکی ایوان نمائندگان کے تمام کے تمام 435 ووٹنگ ممبروں کا انتخاب کریں گے۔ (سینیٹر چھ سال تک خدمات سر انجام دیتے ہیں، لہذا ہر انتخابی دورانیے میں 100 سیٹوں میں سے کم و بیش ایک تہائی نشستوں پر انتخاب ہوتے ہیں۔ ایوان نمائند گان میں ہر نمائندے کی نشست کے لیے ہر دو سال بعد، جفت سالوں میں، انتخاب ہوتے ہیں۔)
ریاستی سطح پر اس سال 11 گورنروں کے انتخاب ہونے ہیں جبکہ ریاستی قانون ساز اداروں کی 5,000 نشستوں کے لیے انتخاب لڑے جائیں گے۔

میری لینڈ یونیورسٹی میں حکومتی امور سے متعلق پروفیسر اور جمہوری اور شہری معاملات کے مرکز کی ڈائریکٹر، سٹیلا راوًز کہتی ہیں، “روزانہ کی بنیاد پر صدر جو کچھ کرتا ہے اس سے لوگوں کی زندگیاں اس طرح متاثر نہیں ہوتیں جس طرح مقامی اور ریاستی حکومتوں [کے فیصلوں سے متاثر] ہوتی ہیں۔ زیادہ تر جو قوانین منظور کیے جاتے ہیں وہ ریاستی سطح پر منظور کیے جاتے ہیں۔” اسی وجہ سے اس سال کے ریاستی انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس کے علاوہ نومنتخب ریاستی قانون ساز، کانگریس کے انتخابی حلقوں کی نئی حد بندیوں میں بھی حصہ لیں گے۔ یہ کام ہر دس سال کے بعد (ایک دس سالہ مردم شماری کی بنیاد پر) کیا جاتا ہے اور اس سے ایک یا دوسری پارٹی کو مدد مل سکتی ہے۔ کورنیل یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر جوش چیفٹز کہتے ہیں، “یہ بات حقیقی معنوں میں اہم ہے کہ مقننہ میں اکثریت کس کی ہے۔”
ریاستی ممبران اس وقت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جب واشنگٹن میں ری پبلکن اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے اراکین کے مابین تعطل کی وجہ سے وفاقی قانون سازی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ راوًز کہتی ہیں، “ہمیں ریاستوں کی طرف دیکھنا چاہیے۔ وہ” امیگریشن جیسی “پالیساں منظور کرنے کے خلا کو پر کرتی ہیں۔”
میئروں اور سٹی کونسل کے ممبران جیسے مقامی عہدیداروں کو صدارتی انتخاب کے سال زیادہ توجہ حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ لوگ زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کیونکہ وہ اُن امور سے متعلق فیصلے کرتے ہیں جو ووٹروں کے نزدیک زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کس سڑک کی مرمت کرنا ہے، کیا مقامی سکولوں میں بہتری لائی جائے اور کیا مقامی معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔
عوام کی طرف سے پالیسی
چوبیس ریاستیں ووٹروں کو جزوی طور پر اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ وہ منتخب عہدیداروں کو نظرانداز کریں۔ ووٹر بیلٹ کے ذریعے معاملات پر براہ راست اپنی رائے دیتے ہیں۔ یہ پروگرام 1978ء میں اس وقت مقبول ہوا جب کیلی فورنیا کے ووٹروں نے “تجویر 13” نامی ایک اقدام کے ذریعے جائیداد پر لگنے والے ٹیکس کی شرح کم کر دی۔ کچھ دوسری ریاستوں میں اس طریقے سے جو اقدامات اٹھائے گئے اُن میں اسلحے کے حصول کے سخت قوانین، محنت کشوں کی اجرتوں کی کم از کم شرح میں اضافہ، اور انتخابی حد بندیوں کے از سرِنو تعین کے لیے آزادانہ کمشنوں کا قیام شامل ہیں۔
راوز کہتی ہیں کہ بیلٹ پروگرام کی سوچ کے پیچھے عوام کے لیے زیادہ اختیار کا نظریہ کار فرما ہے۔ مگر وکیلوں کو [قانون کا] متن تیار کرنے اور اشتہاروں پر پیسے خرچ کرنے سمیت بیلٹ مہم کو چلانے پر اٹھنے والی لاگتیں اتنی زیادہ ہوچکی ہیں کہ اب وہ لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔
جیتنے والے کیسے حکومت چلائیں گے؟
حکومت کی مختلف سطحوں پر اقتدار کی تقسیم کے امریکی نظام کی بنیاد ملک کے آئین پر ہے جو ریاستی اور وفاقی عہدیداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کرتا ہے۔ اسی طرح ریاستیں اپنے اختیارات میں مقامی حکومتوں کو شامل کرتی ہیں۔
چیفٹز کہتے ہیں کہ قومی دفاع جیسی “کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں آپ قومی سطح پر رابطہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی بے شمار دیگر پالیسیاں ہیں [جن کے لیے] ہر جگہ یکساں ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ نظریاتی طور پر وفاقی نظام کیا کرتا ہے، [یہ] دونوں کی اجازت دیتا ہے۔”
ابتداً یہ مضمون 20 فروری 2020 کو شائع کیا گیا۔