نکارا گوا میں انتخابات: نہ آزادانہ اور نہ ہی منصفانہ

نکار اگوا کی حکومت نے جمہوریت کو اپنے عوام کے لیے جعلی صدارتی انتخابات سے اور صحافیوں اور سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں بند کرکے ناکام بنا دیا ہے۔

7 نومبر کو صدر بائیڈن نے کہا، “نکار اگوا کے صدر ڈینیئل اورٹیگا اور ان کی بیوی، نائب صدر روزاریو موریو نے انتخاب کا آج جو ڈھونگ رچایا وہ ایک ایسے انتخاب کا سوانگ تھا جو نہ تو آزادانہ تھا اور نہ ہی منصفانہ تھا۔ اور جمہوری تو یقینی طور پر تھا ہی نہیں۔”

 ماسک پہنے ہوئے ایک عورت ہاتھ میں پکڑا ہیٹ لہرا رہی ہے اور اُس کے اردگرد لوگوں نے جھنڈے اٹھا رکھے ہیں۔ (© Mayela Lopez/Reuters)
7 نومبر کو کوسٹا ریکا میں رہنے والے نکارا گوا کے جلاوطن شہری کوسٹا ریکا کے شہر سان ہوزے میں نکارا گوا کے جعلی صدارتی انتخابات کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ (© Mayela Lopez/Reuters)

نکارا گوا کے صدارتی انتخابات سے پہلے کے مہینوں میں اورٹیگا اور موریو نے مندرضہ ذیل کاروائیوں کیں:-

  • سات صدارتی امیدواروں سمیت حزب اختلاف کی 40 شخصیات کو قید میں ڈآلا۔
  • سیاسی جماعتوں کو انتخاب میں حصہ لینے سے روکا۔
  • میڈیا کے 20 آزاد اداروں کو بند کیا۔
  • صحافیوں اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے افراد کو نظر بند کیا۔
  • دھمکیوں سے معاشرتی تنظیموں کو اپنے ادارے بند کرنے پر مجبور کیا۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 8 نومبر کے ایک بیان میں کہا، “نکارا گوا کے صدر اورٹیگا اور نائب صدر موریو نے خود کو قومی انتخابات میں فاتح قرار دیا ہے جو کہ بہت پہلے سے ایک طے شدہ نتیجہ تھا۔ اس جبر اور انتخابی ہیرا پھیری نے جس کی نکارا گوا کے عوام اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے، 7 نومبر کے ووٹ کی حقیقی اہمیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔”

خراب معاشی مستقبل کے ساتھ ساتھ ظلم و جبر نے خطے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ کے کسٹم اور سرحدی تحفظ کے محکمے کے مطابق اکتوبر 2020 سے لے کر 2021 تک نکارا گوا کے 50,722 شہری ملک سے بھاگ کر امریکہ اور میکسکیو کی سرحد پر پہنچے۔ یہ تعداد 2019 کی ریکارڈ تعداد سے بھی زیادہ تھی جس دوران امریکی حکام نے نکارا گوا کے شہریوں کو 13,300 سے زیادہ مرتبہ روکا۔

 سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا ایک نوجوان اور دروازے سے جھانکتی ہوئی بچی۔ (© Eric Risberg/AP Images)
9 جولائی کو سان فرانسسکو میں ایلن ریاس پیکاڈو اپنے گھر کے باہر تصویر کھچوا رہے ہیں اوردروازے میں کھڑی اُن کی بھانجی اُنہیں دیکھ رہی ہے۔ ریاس نکاراگوا میں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے بعد فروری میں امریکہ پہنچے۔انہوں نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست کر رکھی ہے۔ (© Eric Risberg/AP Images)

ایلن ریاس پیکاڈو نے وائس آف امریکہ (وی او اے) کو بتایا کہ جب انہیں اورٹیگا کے سرکاری اہلکاروں نے ہراساں کیا، جیل میں ڈالا اور نیم برہنہ حالت میں کچرا کنڈی میں پھینکا تو اس کے بعد وہ آدھی رات کے وقت بس کے ذریعے نکارا گوا سے نکلے۔

ریاس پیکاڈو کا جرم کیا تھا؟ اُن کا جرم یہ تھا کہ اُن کے گھر والوں نے حکومت کے حامیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے اپنے ٹرک حکومتی اہلکاروں کو دینے سے انکار کیا تھا۔ ریاس نے وی او اے کو بتایا، “وہ ہمیں اس لیے دھمکیاں دے رہے تھے کیونکہ ہم اُن کے ساتھ شامل نہیں ہوتا چاہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ ہمیں جان سے مار ڈالیں گے اور ہمیں اغوا کر لیں گے۔”

بلنکن نے کہا، “امریکہ خطے اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کے ساتھ جمہوری اصولوں کی اس پامالی کی مذمت کرنے میں شامل ہو رہا ہے۔ ہم نکارا گوا کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور اُن کی حمایت کرتے ہیں جو جمہوریت کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔”